بجٹ: ریلیف یا سونامی ؟

موجودہ حکومت کے قائد نے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے عوام کو آئی ایم ایف کے شکنجے سے آزاد کروانے کے بہت سے دعوے کیے تھے اور پھر اقتدار کی کرسی سنبھالتے ہی قرضے کی بحالی کیلئے آئی ایم ایف کے گرد چکر لگانے شروع کر دئیے۔ ہماری اسی بے صبری پریشانی بے کسی اور بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے آئی ایم ایف نے محض ایک ارب 20کروڑ ڈالر کے قرضے کیلئے ہمیں طویل عرصے تک "ٹرک کی بتی"کے پیچھے لگائے رکھا اور آخر کار پلان B تیار کرنے والی حکومت نے بڑے "دھڑلے "کے ساتھ مندرجہ بالا قرضے کی قسط کے حصول کیلئے آئی ایم ایف کی تمام شرائط تسلیم کرلیں۔ اس مرحلے کو طے کرنے کے فوراً بعد حکومت نے مالی سال 2023-24کیلئے 69کھرب 24ارب روپے کا ریکارڈ خسارے کا بجٹ پیش کرنے کا "اعزاز" حاصل کیا جبکہ سرکاری دستاویزات کے مطابق وفاقی بجٹ کا کل حجم 144کھرب 60ارب روپے ہے۔ اس بجٹ کا تقریباًنصف حصہ 73کھرب 3ارب روپے قرضے اور سود کی ادائیگی کیلئے مختص کیا گیا ہے جبکہ بجٹ میں دو سو ارب روپے کے نئے اضافی ٹیکس لگائے جائیں گے۔ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اگلے مالی سال میں 92کھرب روپے کے ٹیکس وصولی کا ہدف رکھا جا رہا ہے اس کے باوجود اسے حسبِ روائت عوام دوست بجٹ قرار دیا جارہا ہے جس کا "عام عوام "پر قطعاً کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس بجٹ سے چند دِن پہلے حکومت نے مالی سال 2022-23ءکا اقتصادی جائزہ بھی پیش کیا تھا جو پاکستانی معیشت کی تباہ حالی کی صحیح عکاسی کررہاتھا۔ اس کے مطابق ہم ڈالر کو کنٹرول کرنے اور اپنے معاشی اہداف حاصل کرنے میں ب±ری طرح ناکام رہے ہیں۔ گزشتہ سال کے دوران ہماری شرح نمو 0.29فیصد رہی جبکہ مہنگائی میں 30فیصد اضافہ ہوا اور مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 4.6فیصد رہا۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ہماری ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے جہاں زرعی صنعتی ، تجارتی اور سرمایہ کاری کے شعبوں کا گراف نیچے گر گیا وہیں ہماری ملکی معیشت سکڑ کرصرف 341ارب ڈالر رہ گئی۔ دوسری طرف غیر ملکی قرضے حاصل کرنے کی ہماری عادت کی وجہ سے قرضوں پر سود کی ادائیگی میں 69.1فیصد ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک تلخ اور پریشان کن حقیقت ہے کہ ہم غیر ملکی قرضوں کے ساتھ ساتھ "سود در سود" کی ایک دلدل میں ب±ری طرح پھنس چکے ہیں۔ ان حالات میں "عوام دوست بجٹ" پیش کرنے کا صرف "ڈراونا خواب"ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ موجودہ حکومت کی آئینی مدت اگست کے دوسرے ہفتے میں"ختم ہورہی ہے۔ اس نے اپنے آخری بجٹ میں سرکاری ملازمیں کی تنخواہوں میں 30سے 35فیصد اضافہ جبکہ سرکاری محکموں اور اداروں کے بزرگ پنشنرز کی ریکارڈ مہنگائی کے باوجود پنشن میں صرف 17.50فیصد اضافہ کیا اور رجسٹرڈ صنعتی ورکرز کی بڑھاپے کی پنشن میں محض1500 روپے ماہوار کا اضافہ کر کے "حاتم طائی کی قبر پر لات ماری۔ یہ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ بوڑھے بزرگ پنشنرز جن کا "گزر بسر"صرف پنشن پر ہوتا ہے انہیں حاضر سروس سرکاری ملازمیں کو دیئے جانے والے اضافے کے مقابلے میں 50فیصد کم پنشن دینے کا اعلان کیا گیاہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بوڑھے بزرگ پنشنرز اپنی ضعیف العمری کی وجہ سے احتجاج نہیں کرسکتے حالانکہ روائت یہ کہ بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں ایک جیسا ہی اضافہ ہوتا ہے۔ بوڑھے بزر گ پنشنروں کے ساتھ اس زیادتی اور ناانصافی کا ازالہ ضروری ہے۔ حکومت نہ نجانے یہ بات کیوں فراموش کر گئی ہے کہ اس وقت ملک میں بزرگ شہریوں کے ووٹ 2کروڑ کے لگ بھگ ہیں۔ اس قدرووٹوں کی طاقت رکھنے کے باوجود ان کی پنشن میں 35فیصد اضافہ نہ کرنے کی "منطق"سمجھ میں نہیں آرہی۔ حکومت کو یہ بھی چاہیے کہ وہ جان بچانے والی ادویات کی موجودہ قیمتوں میں بھی کم از کم 50فیصد کمی کردے۔ یہ حقیقت ہے کہ عوام آنے والے انتخابی موسم کی وجہ سے حکومت سے بہت سی مراعات اور ریلیف کی توقع رکھتے ہیں جس میں مہنگائی بے روزگاری غربت کا خاتمہ، سر چھپانے کیلئے گھروں کی فراہمی ، بجلی گیس پٹرول ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں کمی، سستا اور فوری انصاف ، اور مافیاز کا خاتمہ شامل ہے۔ لیکن افسوس ایسا نہیں ہورہا۔ وفاقی اور صوبائی بجٹ عوام کیلئے ایک برابر ہیں۔ کیونکہ ان میں تباہ حال معشیت ، زراعت اور صنعت کی بحالی کیلئے بلند و بانگ دعوے کیے گئے ہیں لیکن عملاً کیا ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عوام اس ریکارڈ توڑ مہنگائی غربت اور بے روزگاری کا ذمہ دار حکومت کو ہی ٹھہراتے ہیں جبکہ مخلوط حکومت کے دوسرے بڑے پارٹنر پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری اپنی کامیاب سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے عوام کے "غیض و غضب"سے صاف بچ نکلے ہیں۔ سارا ملبہ "عوام کا خادم"کہلانے والے وزیرِ اعظم پر آن پڑا ہے اس لیے اب بھی وقت ہے کہ عوام کیلئے وہ کوئی بڑا ریلیف دے دیں۔ خاص طور مہنگائی پر کنٹرول کر کے اور بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں قابلِ ذکر کمی کر کے یقینا ©"عام عوام"کی ہمدردیا ں سمیٹی جا سکتی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ میں شہباز شریف عوام کو خوش کرنے کیلئے کیا اقدامات کرتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن