اعجازالحق کا غیر سیاسی برطانوی دورہ

پاکستان مسلم لیگ (ضیاء) کے سربراہ اعجازالحق نے اگلے روز سعودی عرب سے ادائیگی عمرہ کے بعد اطلاع دی کہ چند روز کیلئے وہ برطانیہ آرہے ہیں‘ انکی اس اطلاع پر مجھے حیرانگی اس لئے بھی ہوئی کہ ادائیگی عمرہ کے بعد تو انہیں واپس وطن لوٹنا چاہیے تھا کہ وطن کے شدت سے بدلتے مخدوش سیاسی حالات کے دوران ان کا وہاں ہونا ضروری تھا مگر اعجازالحق صاحب کا کہنا تھا کہ مانچسٹر کی ایک فلاحی و سماجی تنظیم نے اپنے ایک اجلاس میں بطور مہمان خصوصی انہیں دعوت دے رکھی ہے اس لئے مانچسٹر سے چند روز کیلئے وہ لندن بھی آنا چاہتے ہیں تاکہ بیٹے اور فیملی کے دیگر افراد سے بھی ملاقات کر سکیں۔ اسی حوالے سے انہیں بطور مہمان خصوصی گلاسگو کا بھی ایک مختصر دورہ کرنا ہے۔ مگر آپ سے اس مرتبہ برادرانہ درخواست ہو گی کہ دوران ملاقات ”ہاتھ ہولا“ رکھیں کہ میرا یہ دورہ اس مرتبہ قطعی غیرسیاسی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ وطن کی موجودہ سیاسی صورتحال سے ہر محب وطن پاکستانی فکرمند اور پریشان ہے۔ اس بارے میں آپ سے انشاءاللہ مختصر سی بات چیت ضرور ہو گی کہ اوورسیز پاکستانی ہی تو ملک کا حقیقی سرمایہ ہیں جو سالانہ 30 ارب ڈالرز سے زائد رقوم اپنے وطن بھجوا رہے ہیں۔ اس مرتبہ مجھے اپنے مقامی ٹی وی چینلز نمائندوں‘ یوٹیوبرز اور ٹاک ٹاکر دوستوں سے بھی معذرت کرنا ہو گی کہ اس مختصر دورہ کے دوران انہیں وقت دے نہیں پاﺅں گا۔
طے شدہ دن اور وقت پر اعجازالحق لندن آئے۔ گزشتہ نومبر کے بعد 2023ءکا یہ ان کا پہلا غیرسیاسی دورہ تھا۔ پہلا اور آخری سوال میرا ان سے پاکستان کی شدت سے بدلتی سیاسی صورتحال‘ عوام کے دلوں میں پایا جانیوالا خوف‘ ملکی بدحالی اور 9 مئی کے افسوسناک واقعات پر انکے ردعمل کے بارے میں تھا۔ 
آپ کا شکریہ کہ تمام سوالوں کو یکجا کرتے ہوئے فرداً فرداً جواب دینے کے مشکل مرحلہ سے آپ نے مجھے دوچار نہیں ہونے دیا۔ اعجازالحق نے کہا‘ ملک کے سیاسی‘ معاشی اور اقتصادی عدم استحکام سے دوچار قوم کا ہر فرد بلاشبہ موجودہ سیاسی حالات سے پریشان ہی نہیں‘ ہیجانی کیفیت سے بھی دوچار ہے۔ سعودی عرب میں بھی مختلف افراد سے ملاقات کے دوران ان کا بھی یہی اصرار رہا کہ بعض ایسے سوالات کا جواب بھی دوں جن سے دنیا بھر میں پاکستانیوں کی جگ ہنسائی ہی نہیں ہوئی‘ معاشی عدم استحکام کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔ اپنے ان محنت کشوں اور حب الوطنی سے سرشار اہل وطن کے قومی جذبات اور احساسات کا مجھے ادراک تھا اس لئے میں نے انہیں موجودہ ملکی حالات‘ کولیشن حکومت کی کمزور پالیسیوں‘ آئی ایم ایف کے سخت اور کمر توڑ فیصلوں اور ڈالر کی اونچی اڑان کے بعد من حیث القوم خط غربت سے نیچے جانے کے یقینی امکانات کی بنیادی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے ان پر واضح کر دیا کہ ان تمام تر مالی مشکلات اور معاشی بحران سے نکلنے کا واحد راستہ صرف اور صرف انتخابات ہیں جو وقت مقررہ پر ہونا ناگزیر ہیں۔ یہاں مانچسٹر‘ راچڈیل اور گلاسگو میں بھی ہم وطنوں کی ایک بڑی تعداد نے اسی نوعیت کے سوالات پوچھے ہیں کہ ملکی بدحالی اور کمزور ترین معیشت کی بحالی کیلئے پہلے قرضوں کی ادائیگی اور نئے قرضوں کے حصول میں حائل کڑی شرائط کا پورا کرنا مالی اداروں کی اولین ترجیح ہے جنہیں پورا کئے بغیر نئے قرضوں کا اہداف حاصل کرنا ممکن نہیں۔ 
اب آپ کا ایک ہی سوال میں خوبصورتی سے یہ بھی پوچھ لینا کہ حالیہ 9 مئی کے انتہائی افسوسناک واقعہ پر میرا ردعمل کیا ہے؟ اچھا لگا۔ اپنا فوری ردعمل گو میں نے 9 مئی کے فوری بعد ہی دے دیا تھا مگر آپ نے چونکہ دوبارہ جاننا چاہا ہے تو میں پھر سے وضاحت کئے دیتا ہوں۔ اعجازالحق نے مسکراتے ہوئے کہا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میرا تعلق ایک ایسے فوجی گھرانے سے ہے جس کی قربانیاں قوم سے قطعی ڈھکی چھپی نہیں۔ 9 مئی کو جس طرح عسکری تنصیبات کو نذر آتش اور تاریخی عمارات کی جس طرح بے حرمتی کی گئی‘ میں نے اسی وقت ان شرمناک واقعات کی بھرپور مذمت کی اور اسے تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا۔ اسی طرح شہداءکے ورثاءکو جس طرح تکلیف پہنچی‘ اسے بھی میں نے اپنی تکلیف قرار دیا۔ افواج پاکستان جو ہماری نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی محافظ ہے‘ اس کے خلاف کی جانیوالی اس گہری سازش میں ملوث شرپسند عناصر کو قانون کے مطابق سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے۔ کورکمانڈر ہاﺅس پر حملہ کوئی عام واقعہ نہیں‘ اس واقعہ سے پاکستان کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ اس لئے میں دوبارہ یہ الفاظ دہرائے دیتا ہوں کہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنیوالوں کو ہر حال میں سخت سے سخت سزا دی جائے۔

ای پیپر دی نیشن