آئی ایم ایف کا عوام دشمن ایجنڈا اور حکومتی آزمائش 

وفاقی وزارت خزانہ کی جانب سے سینٹ کی مجلس قائمہ برائے خزانہ کو بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف حکومت کے پیش کردہ 2023-24ءکے بجٹ سے مطمئن نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں وزارت خزانہ کے افسروں نے جو قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک تھے‘ اس امر سے آگاہ کیا کہ آئی ایم ایف بجٹ میں ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیو کے بارے میں ڈیٹا پر مطمئن نہیں اور مزید اقدامات کیلئے کہہ رہا ہے جبکہ اس نے پٹرولیم مصنوعات پر لیوی بڑھانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے 50 روپے فی لٹر لیوی کو ناکافی قرار دیا ہے۔ اسی طرح آئی ایم ایف نے ٹیکس ہدف پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
سینٹ کمیٹی کے اجلاس میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ وزارت خزانہ کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کا اختیار پارلیمنٹ سے واپس لینے کی تجویز پیش کی گئی ہے تاکہ حکومت محض کابینہ کے فیصلے کے تحت لیوی عائد کر سکے۔ اس طرح آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق پٹرولیم لیوی میں دس روپے فی لٹر اضافے کا امکان موجود ہے۔ قائمہ کمیٹی کے رکن سنیٹر محسن عزیز نے اس تجویز کو پاریمنٹ کے اختیارات میں مداخلت قرار دیا جس پر کمیٹی کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے اس تجوبز پر غور موخر کر دیا۔
یہ طرفہ تماشہ ہے کہ آئی ایم ایف نے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے معاہدے پر عملدرآمد میں بدعہدی کو جواز بنا کر پاکستان کا قرض پروگرام معطل کیا اور اس کی اگلی قسط کی ادائیگی روک کر نئی شرائط پیش کرنا شروع کر دیں جس پر پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمہ کے بعد اقتدار میں آنے والی اتحادی جماعتوں کی حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہوئیں۔ وہ پٹرولیم مصنوعات ‘ بجلی‘ گیس اور ادویات کے نرخوں میں بتدریج اضافے پر مجبور ہوئی‘ نتیجتاً مہنگائی در مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام کی چیخیں نکلنا شروع ہو گئیں جو پی ٹی آئی کے دور سے روزافزوں مہنگائی کی اذیت برداشت کر رہے تھے جبکہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر موجود اتحادی جماعتوں اور پیپلزپارٹی کی قیادتوں کی جانب سے عوام کو یقین دلایا جا رہا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر سب سے پہلے عوام کو غربت‘ مہنگائی کے مسائل میں ہی ریلیف دیں گے۔
اس کے برعکس جب آئی ایم ایف کی ہر شرط کو منظور کرتے ہوئے اتحادی حکومت نے عوام کیلئے غربت‘ مہنگائی‘ بیروزگاری کے مسائل میں مزید اضافہ کیا تو اس سے جہاں عوام کے دلوں میں اس حکومت کیلئے بدگمانیاں پیدا ہوئیں وہیں پی ٹی آئی چیئرمین کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ اس تناظر میں یہ کہنا بے جا نہیں کہ پی ٹی آئی حکومت نے ملک میں انتشار‘ سیاسی عدم استحکام پیدا کئے رکھنے کے ایجنڈے کے تحت اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتے دیکھ کر آئی ایم ایف کے ساتھ بدعہدی کی اور آئی ایم ایف نے اسی ایجنڈے کے تحت پاکستان کا قرض پروگرام معطل کرکے ملک میں عدم استحکام اور غیر یقینی کی فضا کو مزید فروغ دینے کا اہتمام کیا۔ اس کی جانب سے قرض پروگرام کی بحالی کیلئے مزید شرائط عائد کرنا اور پھر بھی موجودہ حکومت کا آخری بجٹ پیش ہونے تک پاکستان کی قرض کی قسط روکے رکھنا پاکستان میں انتشار پھیلانے کے بادی النظر میں اسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کی ہر نئی شرط بھی دوزانو ہوکر قبول کی اور اسے عملی جامہ پہنا کر عوام کو مہنگائی کے نئے سونامیوں کے آگے ڈالنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ موجودہ حکومت نے صرف اتنی سی بدعہدی کی کہ آئی ایم ایف کے بجٹ میں ٹیکسوں کی وصولی کا مجموعی ہدف 9 ہزار آٹھ سو ارب روپے مقرر کرنے کے تقاضے میں معمولی سا ردوبدل کرکے یہ ہدف 9ہزار دو سو ارب روپے مقرر کر دیا جس پر آئی ایم ایف کی جبین نیاز مزید شک آلود ہو گئی اور اب اس نے پاکستان سے پٹرولیم لیوی کی شرح میں مزید دس روپے فی لٹر اضافے کا تقاضا بھی شروع کر دیا ہے جبکہ آئی ایم ایف کے پاکستان کیلئے قرض پروگرام کی معیاد بھی رواں ماہ 30 جون کو ختم ہو رہی ہے۔ اس طرح پاکستان کے عوام کو اس کے حکمرانوں کے ہاتھوں راندہ¿ درگاہ بنانے اور حکومت کیلئے عوامی نفرت کی نوبت لانے کے باوجود آئی ایم ایف پاکستان کی جانب سے بڑھائے گئے کشکول میں ایک دھیلا بھی ڈالنے کو آمادہ نظر نہیں آرہا۔
یہ صورتحال تو پاکستان کیلئے ”جو ہو چکا‘ سو ہو چکا“ کے مصداق آئی ایم ایف سے مستقل خلاصی پانے کا باعث ہونی چاہئے جس کے بارے میں وزیراعظم اورمتعلقہ وزراءکی جانب سے بجٹ پیش کئے جانے سے قبل عندیہ بھی دیا جاتا رہا ہے اور قوم کوخوشخبری کے انداز میں باور کرایا جاتا رہا ہے کہ ہمارے پاس ہمہ وقت بی پلان موجودہے جو آئی ایم ایف کا قرض بحال نہ ہونے کی صورت میں بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ عوام کو تو یہی توقع تھی کہ حکومت بالآخر اپنے بی پلان کو ہی بروئے کار لائے گی جو برادر دوست چین اورمسلم ممالک سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب سے ملنے والے بیل آﺅٹ پیکجز اور ان کی جانب سے کئے گئے مزید وعدوں پر مبنی ہے مگر حکومت ابھی تک آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی بحالی کی ہی آس لگائے بیٹھی ہے حالانکہ اب روس کی جانب سے پاکستان کو سستے تیل اور گیس کی فراہمی بھی شروع ہو گئی ہے۔ 
یہ صورتحال اس امرکی متقاضی ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ کر قومی معیشت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کے متبادل ذرائع اختیار کرے جواس کے بی پلان میں موجود ہیں۔ عوام اب بہرحال مزید مہنگائی کے ہرگز متحمل نہیں ہو سکتے جو آئندہ انتخابات میں اسی بنیاد پر اتحادی جماعتوں کو مسترد کر سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن