ایران کے سرکردہ سنی عالم دین مولوی عبدالحمید کو حکام نے سفرِحج پر جانے سے روک دیا ہے۔مولوی عبدالحمید کی ویب گاہ کے مطابق وہ رواں سال فریضۂ حج ادا کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن ایران کی وزارتِ سراغرساں کی جانب سے انھیں مطلع کیا گیا کہ ان پر حج کے لیے سعودی عرب جانے پر پابندی عاید ہے۔ایرانی حکام نے اس معاملے کے بارے میں کوئی سرکاری بیان جاری کیا ہے اور نہ اس کی کوئی وضاحت پیش کی ہے۔
مولوی عبدالحمید ایران کے سنی اکثریتی جنوب مشرقی صوبہ سیستان،بلوچستان کے دارالحکومت زاہدان سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ 22 سالہ ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے ردعمل میں ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن پر ایرانی حکومت کو کڑی نکتہ چینی کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔وہ کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور ایران کی سنی اقلیت میں انتہائی قابل احترام شخصیت سمجھتے جاتے ہیں۔ایرانی حکومت پر ان کی حالیہ کھلم کھلا تنقید نے انھیں ایرانیوں میں مزید مقبول بنادیا ہے۔سیستان، بلوچستان کی سرحدیں پاکستان اور افغانستان دونوں سے ملتی ہیں۔ یہ ایران کے غریب ترین علاقوں میں سے ایک ہے اور یہاں زیادہ تر بلوچ نسل سے تعلق رکھنے والے اہلِ سنت آباد ہیں، جو شیعہ اکثریتی ایران میں ایک اقلیت ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ انھیں گذشتہ کئی دہائیوں سے امتیازی سلوک اور جبرواستبداد کا سامنا ہے۔اس صوبہ میں مہسا امینی کی موت اور حکام کی چیرہ دستیوں کے خلاف کئی مہینوں تک باقاعدگی سے حکومت مخالف مظاہرے ہوتے رہے تھے اور اکثر نماز جمعہ کے اجتماعات کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد ان مظاہروں میں شرکت کرتی رہی ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کے دوران میں ایرانی سکیورٹی فورسز نے سیکڑوں افراد کو ہلاک کیا۔ان میں سب سے زیادہ ہلاکتیں سیستان بلوچستان ہی میں ہوئی تھیں۔واضح رہے کہ مہسا امینی کو 16 ستمبر 2022 کو تہران میں اخلاقی پولیس نے خواتین کے سخت ضابطہ لباس کی مبیّنہ خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور وہ اس کے تین دن بعد پُراسرار حالات چل بسی تھیں۔ان کی موت کے ردعمل میں ایرانی حکام کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک شروع ہوگئی تھی۔