مصر میں یونیورسٹی کی طالبہ نیّرہ اشرف کے قاتل کو بدھ کے روز پھانسی دے دی گئی ہے۔اس 21 سالہ طالبہ کو گذشتہ سال جون میں مجرم نے اس بنا پر ایک جامعہ کے دروازے پر قتل کر دیا تھا کہ مقتولہ نے اس کی شادی کی پیش کش ٹھکرا دی تھی۔اس گھناؤنے جرم نے ملک اور خطے کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔مجرم محمد عادل کو گورنری دقلیہ میں واقع جماسا جیل کے حکام نے پھانسی دی ہے۔اس نے گذشتہ سال گرفتاری کے بعد اپنے جرم کا اقرارکیا تھا۔ سزائے موت کے خلاف مجرم کے وکلاء کی جانب سے دائرکردہ اپیلیں مسترد کردی گئی تھیں اور اس کے بعد سزائے موت کے حکم پرعمل درآمد کیا گیا ہے۔مصر کی ایک عدالت نے عادل کو گذشتہ سال جون میں مقدمے کی دو روزہ سماعت کے بعد سزائے موت سنائی تھی۔یونیورسٹی طالبہ کے اندوہ ناک قتل کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔اس میں عادل کو قاہرہ سے 150 کلومیٹر شمال میں واقع منصورہ میں یونیورسٹی کے باہر نیّرہ اشرف پر چاقو سے حملہ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔قتل سے قبل مقتولہ نے حکام کو حملے کے خدشے کے بارے میں آگاہ کیا تھا اور استغاثہ نے کہا تھا کہ ملزم کے فون سے ’’نیّرہ کا گلا کاٹنے سے متعلق دھمکی آمیز پیغامات‘‘ ملے تھے۔اس واقعے کے بعد منصورہ کی فوجداری عدالت نے عادل کی سزائے موت کی توثیق کی تھی اور مصری حکام نے اس وقت کہا تھا کہ عادل نے جان بوجھ کر اس جرم کا ارتکاب کیا تھا اور یہ قتلِ عمد کا واقعہ تھا۔نیّرہ اشرف کی والدہ نے مجرم کی پھانسی کے بعد ویب سائٹ قاہرہ 24 کو بتایا کہ ’’میں خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میری بیٹی کو اب سکون ملے گا‘‘۔ان کے والد نے ویب سائٹ کو بتایا کہ ’’میری بیٹی واپس نہیں آئے گی۔میں خوش نہیں ہوں، لیکن یہ اللہ کا انصاف ہے کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میری بیٹی کا حق چھین لیا گیا تھا اور وہ اب یقینی طور پر راحت میں ہوگی‘‘۔گذشتہ سال مصر میں خواتین کے قتل کے پے درپے واقعات نے بڑے پیمانے پر غم و غصے کو جنم دیا تھا اور سوشل میڈیا پر صارفین نے ان واقعات کے مجرموں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق مصر میں قتل کے جرم کی سزا موت ہے اور ملک میں گذشتہ سال دنیا میں چوتھے نمبر پر سب سے زیادہ پھانسیاں دی گئی تھیں۔