کوئی بھی مسئلہ صرف ہمارا نہیں 

پس آئینہ 
خالدہ نازش 

میں سمت کا تعین کرنے میں ہمیشہ کنفیوژن کا شکار رہی ہوں ۔ بچپن سے لے کر آج تک وہ تمام مقامات جہاں میں جا چکی ہوتی ہوں ، وہ تمام راستے سڑکیں جہاں سے گزر ہو چکا ہوتا ہے جب گھر بیٹھ کر تصور میں لاتی ہوں تو درست تعین نہیں کر پاتی ۔ مجھے مشرق کی جانب واقع مقامات جنوب میں اور جنوب میں واقع مغرب کی جانب لگتے ہیں ، وہاں جانے کے بعد لگتا ہے جیسے گھوم کر اپنی جگہ پہ آ گے ہوں ۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ اگر کوئی مجھ سے کسی جگہ جانے کا پتا پوچھ لے تو کبھی منزل پر نہ پہنچ پائے ۔ پہلے تو میں نے اس مسئلے کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا تھا ، لیکن بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ اگر کسی مسئلے کی عمر بھی بڑھتی جائے تو پھر وہ تشویش پیدا کرنے لگتا ہے ۔ مجھے بھی اس مسئلے نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہے ۔؟ میں وجہ کی تلاش میں کچھ دن گلیلیو کی تھیوری کہ زمین بھی تمام سیاروں کی طرح سورج کے گرد گردش کرتی ہے یعنی زمین گھومتی رہتی ہے کے پیچھے چھپ کر خود کو تسلی دیتی رہی کہ میرے ساتھ یہ مسئلہ اسی وجہ سے ہے کہ زمین گھوم جاتی ہے ، مگر یہ چھپنا زیادہ دیر کے لئے نہیں تھا ، کیونکہ جب قرآن کی نظر سے دیکھا کہ سورج چل رہا ہے اور زمین ساکن ہے تو پھر سوچنا شروع کر دیا کہ کوئی نفسیاتی مسئلہ ہو سکتا ہے ۔ اور کیا صرف میرے ساتھ ہی ہے ؟ یا اور لوگ بھی اس قسم کے مسئلوں کا شکار ہیں یہ جاننے کے لئے جب میں نے کچھ لوگوں سے اپنا مسئلہ share کیا تو بھی کئی سالوں سے گرد کے غلاف میں لپٹی زندگی کی بند کتاب سے گرد جھاڑنے لگے ، اور بچپن سے اپنے ساتھ جڑے مسئلوں کی گرہیں کھولنا شروع کر دیں ۔ جوں جوں وہ مجھ پر کھلتے چلے گئے مجھے انسانی نفسیات کے ایک نئے chapter کو پڑھنے کا موقع ملا ۔ اس معاملے میں مجھے ان لوگوں کی مماثلت بارش کے پہلے قطرے اور پرندے کی پہلی پرواز کی طرح لگی Initiative پہلے قطرے کو ہی لینا ہوتا ہے اور پرندے کو دنیا میں اترنے کے لئے پہلی پرواز ضروری ہوتی ہے اور اس کے بعد تمام حصار ٹوٹ جاتے ہیں ۔ اب یہ لوگ بھی اپنے اپنے حصار سے باہر آ گئے تھے ۔ اور ان سب لوگوں کے ساتھ بھی بچپن سے جڑا کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور تھا فرق صرف اتنا تھا کہ میرے علاوہ یہ سب اپنے مسئلوں کے ساتھ بنا کسی تشویش کے ہنسی خوشی جی رہے تھے ۔ ہم پاکستان کے لوگ الحمدللہ بڑے بڑے مسئلوں کے باوجود خوش باش رہنے والی قوم ہیں ۔ اقوام متحدہ ہر سال 20 مارچ کو خوشی کے عالمی دن کے موقع پر ورلڈ ہیپی نس رپورٹ جاری کرتا ہے جس میں تمام ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر دیکھ کر حیرانگی ہوتی ہے کہ اتنے مسائل میں گھیرے ہوئے ملک کے لوگ مشکل زندگی گزارنے کے باوجود خوش رہتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ سوچتے کم ہیں ، اور کم غور وفکر کرتے ہیں ۔ ہم زیادہ تر پاکستانی زندگی کی سمت کا تعین نہیں کرتے ، ایک متعین سمت پر زندگی خود ہی چل پڑتی ہے جس میں مردوں کا کام کمانا اور عورتوں کا کام زیادہ تر گھر داری ہوتا ہے ۔ بس زندگی کی غلامی کے حلف نامے پر دستخط کرنے ہوتے ہیں اور پھر عمر بھر کے لئے ہاتھ باندھ کر غلامی کی جاتی ہے ۔ زندگی جدھر ہانکتی ہے چلنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ۔ اپنے اوپر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کرتے ایک بوجھ کی طرح زندگی کاندھوں پر لدی ہوتی ہے اور خاموشی سے اٹھائے پھرتے رہتے ہیں ، اور نہ ہی زندگی کے کسی فیصلے سے بغاوت کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں ۔ تقدیر کا لکھا سمجھ کر زندگی کے ہر فیصلے کے آگے ہتھیار ڈالنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ۔ قناعت پسند ہوتے ہیں زندگی سے زیادہ شکوہ شکایت بھی نہیں کرتے ، تھوڑے پر بھی صبر و شکر کر لیتے ہیں ۔ بحر زندگی میں کوئی تلاطم نہیں ہوتا ۔ ہم زیادہ تر پاکستانیوں نے زندگی گزارنے کی یہ آسان راہ اختیار کی ہوتی ہے ۔ خاموشی سے آتے ہیں اور خاموشی سے چلے جاتے ہیں ۔ بقول شاعر 
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے 
اپنی خوشی سے آے نہ اپنی خوشی چلے 
 خیر ، بات بچپن سے زندگی کے ساتھ جڑے معاملات کی ہو رہی ہے تو میرے تمام دوستوں کے مسئلوں میں میرے ایک مہربان کا مسئلہ قابل ذکر ہے ، جن کا کہنا تھا کہ مجھے بچپن سے لیکر آج تک اکثر لگتا ہے جیسے " ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے" مجھے کچھ لوگوں سے ملنے کے بعد جن سے میں پہلی بار ملتا ہوں لگتا ہے ان سے میں پہلے بھی مل چکا ہوں ، یا کسی نئی جگہ جا کر لگتا ہے جیسے میں یہاں پہلے بھی آ چکا ہوں ، زندگی میں بہت سے ایسے کام ہیں جو میں نے پہلی بار کیے ہوں اور مجھے لگتا ہے جیسے میں یہ پہلے بھی کر چکا ہوں۔ میں نے ان مہربان کے مسئلے پر بھی اپنے مسئلے کی طرح تھوڑی تحقیق کرنا چاہی تو پتا چلا کہ ایسا کچھ لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے اور اس سلسلے میں سب سے قدیم مفروضہ ہندو مت مذہب کا ہے ۔ ہندومت کے مطابق یہ ہماری پچھلی زندگی کی کوئی یاداشت ہوتی ہے ۔ ہندومت میں کئی جنم مانے جاتے ہیں اور ہندو فلاسفی کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ ہندو مت میں کی? جنم اور آواگون کا نظریہ اسی بنیاد پر کھڑا ہے ۔ ہندو مت کے مطابق ایک انسان کی? زندگیاں گزار چکا ہوتا ہے وہ کبھی جانور بن کر دنیا میں آتا ہے اور کبھی انسان ۔ ان کے مطابق جب انسان دوبارہ جنم لیتا ہے تو وہ اپنی پرانی یاداشت لے کر جنم نہیں لیتا ، لیکن زندگی میں اسے ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن سے لگتا ہے ہم ماضی میں اس دنیا میں رہ چکے ہیں ۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ جب ہم سو رہے ہوتے ہیں تو ہماری روح ہمارے جسم سے نکل کر کچھ کام کرتی ہے اور وہ کام ہمارے سوتے جسم میں محفوظ رہ جاتا ہے ، اور پھر جب حقیقت میں وہ کام کرنے لگتے ہیں تو لگتا ہے یہ کام پہلے کر چکے ہیں ۔ تیسرا نظریہ ہمارا دماغ ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہے اس کے اندر کوئی نہ کوئی بات گردش کرتی رہتی ہے ، ہم خیالوں میں بہت سی تصویریں بناتے رہتے ہیں ان میں سے کچھ تصویریں حقیقت سے ملتی جلتی ہوتی ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ ہم پہلے یہ دیکھ چکے ہیں ۔ چنانچہ ، میرے ایک مسئلے نے بہت سے لوگوں کے مسئلوں کو کھول کر سامنے رکھ دیا جس کے بعد مجھے تھوڑا اطمینان ہوا اور میں اس نتیجے پر پہنچی ? کہ کوئی بھی مسئلہ اس وقت تک صرف ہمارا ہوتا ہے جب تک دوسروں سے share نہ کر لیا جائے ۔

ای پیپر دی نیشن