عوام دوست یا آئی ایم ایف کا بجٹ؟

Jun 15, 2024

قیوم نظامی

متحدہ ہندوستان میں 1946ءکے انتخابات کے بعد ایک عبوری حکومت تشکیل دی گئی تھی جس کے وزیر خزانہ لیاقت علی خان تھے-آل انڈیا مسلم لیگ کے تمام مرکزی لیڈر عوام دوست تھے لہذا انہوں نے جو بجٹ پیش کیا وہ غریب نواز بجٹ تھا-آزادی کے بعد جب 1947ءکا بجٹ پیش کیا گیا تو وہ بھی عوام دوست بجٹ تھا-آج کا پاکستان مکمل طور پر اشرافیہ کا پاکستان بن چکا ہے لہٰذا اشرافیہ جو بھی قومی بجٹ پیش کرتی ہے اس میں اشرافیہ اپنے مفادات کو ترجیح دیتی ہے اور عوام کے مفادات کو ہمیشہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے-حالیہ بجٹ بھی ہرگز عوام دوست بجٹ نہیں ہے بلکہ معاشی ماہرین کے مطابق یہ بجٹ خصوصی طور پر آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق تیار کیا گیا ہے- جس کا کلیدی مقصد آئی ایم ایف کا اگلا پروگرام حاصل کرنا ہے-پاکستان کے عوام پہلے ہی انتہائی اذیت ناک زندگی بسر کر رہے ہیں-ان کی حالت بقول شاعر کچھ یوں ہے-
اس دور میں زندگی بشر کی 
بیمار کی رات ہو گئی ہے
پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب یہ بیان دے چکے ہیں کہ ائی ایم ایف کے بغیر پاکستان کے پاس اور کوئی آپشن ہی نہیں ہے-ان کا یہ کہنا البتہ درست ہے کہ پاکستان میں سکول اور ہسپتال تو خیرات سے چلائے جا سکتے ہیں مگر ریاست کا نظم و نسق ٹیکسوں کے بغیر نہیں چلایا جا سکتا - روایت کے مطابق حالیہ بجٹ بھی خسارے کا بجٹ ہے-کل اخراجات کا تخمینہ 18877 بلین روپے ہے-جن میں سے قرضوں کی ادائیگی کے لیے 9775 بلین روپے رکھے گئے ہیں جبکہ دفاع کے لیے 2122 بلین مختص کیے گئے-ترقیاتی منصوبوں کے لیے 1400 رکھے رکھے گئے ہیں-وفاقی وزیر خزانہ نے دعوی کیا ہے کہ اگلے مالی سال کے دوران 40 فیصد زیادہ 2.9 ٹریلین ٹیکس ریوینیو جمع کیا جائے گا-معاشی ماہرین اس دعوے سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ پچھلے جتنے بھی اہداف تھے وہ پورے نہیں کیے جا سکے اور نہ ہی ریوینیو جمع کرنے والی اتھارٹی میں کوئی جوہری اور انقلابی نوعیت کی اصلاحات کی گئی ہیں کہ جن کی بنیاد پر عوام یہ توقع کرنے لگیں کہ اب ٹیکس جمع کرنے کا نظام بہتر ہو گیا ہے لہٰذا ٹیکس کا ٹارگٹ پورا کر لیا جائے گا-ڈائریکٹ ٹیکس 5512 بلین روپے جبکہ ان ڈائریکٹ ٹیکس 7458 بلین روپے وصول کیے جائیں گے- عوام ان ڈائریکٹ ٹیکس کو حکومت کا "جگا ٹیکس" قرار دیتے ہیں-
بدقسمتی سے پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کے پیش نظر پاکستان کی حکومت کو چین یو اے ای اور دوسرے ملکوں سے لیے گئے قرضوں کو ری شیڈیول کرانے کے لیے منت سماجت کرنی پڑ رہی ہے- کیونکہ حکومت کے پاس ان قرضوں کو بروقت ادا کرنے کے لیے وسائل ہی موجود نہیں ہیں-حالیہ بجٹ میں ایک جانب سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20 سے 25 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ دوسری جانب ان پر ٹیکس کی شرح بھی بڑھا دی گئی ہے-اس کو کہتے ہیں کہ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے-بجٹ میں کم سے کم تنخواہ میں بھی اضافہ کر کے اسے 32 ہزار سے 37 ہزار روپے کر دیا گیا ہے-پٹرولیم مصنوعات کی لیوی میں اضافہ کر کے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ بجلی اور گیس کے بلوں نے پہلے ہی عوام کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے-ریئل اسٹیٹ پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے البتہ حسب معمول زراعت پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا- پاکستان پر جاگیردار خاندان قابض ہیں جو زرعی ٹیکس لگنے ہی نہیں دیتے-
بے نظیر انکم سپورٹ میں 27 فیصد اضافہ کر کے کل رقم 593 ارب روپے کر دی گئی ہے-کفالت پروگرام کا دائرہ بھی ایک کروڑ افراد تک بڑھا دیا گیا ہے- تعلیمی وظائف کے لیے ایک کروڑ 40 لاکھ طلبہ کے لیے فنڈز مختص کیے گئے ہیں-حیران کن بات یہ ہے کہ حکومتی اخراجات کم کرنے کی بجائے ان میں اضافہ کر دیا گیا ہے- انتہائی سنگین معاشی بحران کے باوجود وی آئی پی کلچر کو ختم کرنے کے لیے کوئی فیصلے نہیں کیے گئے- سادگی اور کفایت شعاری بھی کہیں نظر نہیں آ رہی--نان فائلرز کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے تاکہ وہ ٹیکس نیٹ میں آنے پر مجبور ہو جائیں-اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کے لیڈروں نے حالیہ بجٹ کو عوام کے لیے" زہر قاتل "قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس عوام دشمن بجٹ کے بعد عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا- پاکستان جب تک آئی ایم ایف کے شکنجے سے باہر نہیں نکلے گا اور ہوم میڈ سفارشات اور تجاویز پر عمل درامد نہیں کرے گا پاکستان کبھی اپنے پاو¿ں پر کھڑا نہیں ہو سکے گا- اصلاحات کا پیکیج حکومتی سرد خانوں میں پڑا ہے-عوامی شاعر حبیب جالب نے 30 سال قبل قومی بجٹ کے سلسلے میں اپنی ایک نظم لکھی تھی جو آج بھی معاشی حالات پر پوری طرح صادق آتی ہے-
وہ جب اعلان کرتے ہیں بجٹ کا 
غریبوں ہی کا ہو جاتا ہے جھٹکا 
وہ ایوانوں میں سرمست و غزل خواں 
وطن قرضوں کی سولی پر ہے لٹکا
دھرتی سے جڑے ماہرین معیشت میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں مقامی حکومتوں کو مستحکم اور مضبوط بنانا چاہیے اور ٹیکس جمع کرنے کی ذمہ داری بھی اگر مقامی حکومتوں کو سونپ دی جائے تو ٹیکس کولیکشن میں قابل ذکر اضافہ کیا جا سکتا ہے- افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست اور ریاست پر بالادست خاندان اپنے اختیارات چھوڑنے کے لیے آ مادہ نہیں ہیں- یہی وجہ ہے کہ وہ مقامی حکومتوں اور بلدیاتی انتخابات کو اہمیت ہی نہیں دیتے-قومی بجٹ میں ایسے لانگ ٹرم اقدامات اٹھانے اور فیصلے کرنے کی ضرورت ہے جو پاکستان کے اندر حالات کو سازگار بنا سکیں اور اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ہو سکے- حسب روایت حالیہ قومی بجٹ میں بھی تعلیم اور صحت کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی-ہیومن ریسورس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کی گروتھ میں اضافہ ہو سکے اور بے روزگاری کا خاتمہ کیا جا سکے-قومی بجٹ میں ایسے اقدامات بھی اٹھانے چاہیں جن کی بنیاد پر برامدات میں اضافہ ہو سکے جو طویل عرصے سے جمود کا شکار ہیں-مسلم لیگ نون کا حالیہ بجٹ بھی سیاسی مصلحتوں کا شکار نظر آتا ہے۔ تاجروں دکانداروں پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا گیا جو مسلم لیگ نون کے حامی سمجھے جاتے ہیں - اسے ہرگز عوام دوست بجٹ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع تیار کیا گیا ہے اور اس میں غریب عوام کے مفادات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے- معاشی ماہرین کے مطابق حالیہ قومی بجٹ کے بعد عوام کو مہنگائی کی صورت میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا-

مزیدخبریں