وفاقی حکومت نے اس سال کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ بجٹ کیا ہے، ٹیکسز کی بھرمار ہے۔ بجٹ کے بارے میں لوگوںنے مختلف تبصرے کیے ہیں۔ کسی نے اسے خوبصورت الفاظ میں خوفناک بجٹ قرار دیا تو کسی نے اسے ظالمانہ بجٹ کہا۔ حسبِ روایت ہر سال جو بھی حکومت ہو اُس نے پیش کرنا ہوتاہے۔ کاش کہ پاکستان میں رہنے بسنے والا وزیر خزانہ جو صرف آئی ایم ایف اوراشرافیہ کا ترجمان نہ ہوتا، غریب، بے کس اور بے بس عوام کے حالات و واقعات سے مکمل آشنا ہوتا اور اُن کی فلاح و بہبود کے لئے بجٹ پیش کرتا۔ معذرت کے ساتھ وزیر خزانہ صاحب بھی ”امپورٹڈ“ ہیں اور آئی ایم ایف کی اُمنگوں کے مطابق بجٹ پیش کیا گیا۔ وزیر خزانہ کا کہنا کہ ”ہم سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں ایسا نہ ہو کہ کشتی ڈوب جائے“ معذرت کے ساتھ جناب ہم سب ایک کشتی میں سوارنہیں ہیں۔ ”اشرافیہ“ اور ”حکمران طبقے“ کی کشتی الگ ہے اور غریب عوام کی کشتی الگ ہے۔ جس کا صرف اور صرف اللہ مالک ہے۔ عوام کا بجٹ کی تقریروں، لفاظی اور جمع تفریق سے کوائی واسطہ نہیں۔ اُنھیں تو صرف صحت، تعلیم، بجلی، گیس اور روزمرہ کی اشیاءکا سستے داموں ملنے سے غرض ہے اور یہ خواب شاید اب اُن کا کبھی بھی پورا نہ ہو۔ بیرونی قرضوںکی ادائیگی کے لئے اربوں رقم مختص کی گئی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف اور دیگر ممالک سے جو قرضے لئے جاتے ہیں اُن کا مصرف کیا ہوتا ہے؟ وہ کہاں جاتے ہیں۔ عوام تو دُور دُور تک ان کے ثمرات سے محروم رہتی ہے۔ اربوں کے قرضے لینے کے باوجود عوام کی حالت جوں کی تُوں رہتی ہے۔ وہ قرضے حکمران طبقہ اور اشرافیہ ذاتی مال سمجھ کر کھا جاتے ہیں۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے وزراءاور سینٹ کے ارکان وغیرہ کی بھاری بھر مراعات پر خرچ ہوتے ہیں۔ کچھ طبقہ بیرونِ ملک لے جاتا ہے۔ اُن کے خلاف نیب مقدمات بناتا ہے اور بعد میں خود ہی نیب اُنھیں بے گناہ قرار دے کر اُن کی ضمانتیں ہی نہیں بلکہ اُنھیں عدالتوں سے بری بھی کرا لیتا ہے۔ دوسرے لفظوں سے سے اُن قرضوں سے عیاشیاں صرف اشرافیہ اور حکمران طبقہ کرتا ہے اور پھر وہ وصول صرف عوام سے بھاری ٹیکسز کی مَد میں کیے جاتے ہیں۔ عوام بے گناہ مہنگائی کی چکّی میں پِس جاتے ہیں۔ جمہوریت میں عوام کی حکومت عوام کے لیے اور عوام پر ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ وطنِ عزیز میں چند خاندان (اشرافیہ) 76سال سے عوام پر حکمران ہیں۔ غریبوں کا نام لے کراُنھیں لُوٹ رہے ہیں۔ المیہ تواَب یہ ہے کہ عوام ان کو الیکشن میں Rejectبھی کرتے ہیں پھر بھی حکومت میں یہ ہی ہوتے ہیں۔ اِن کی اربوں کی جائیدادیں اندرون و بیرون ملک ہیں۔ ہزاروں ایکڑ ان کی زرعی اراضی ہے۔ ان سے ٹیکس کوئی بھی نہیں لیتا، نہ کسی میں ہمت ہے جواِن سے سوال بھی پوچھ سکے۔ ملکی ادارے بھی صرف اسی اشرافیہ کو سپورٹ کرتے ہیں۔ جب یہ حکومت میں ہوتے ہیں قانون بھی اِن کو ”استثنیٰ “دے دیتا ہے۔ ہر دَور میں یہ عیاشیاں کرتے ہیں۔ غریب کا کوئی بھی پُرسانِ حال نہیں ہوتا۔ مزدور کی تنخواہ 30ہزار سے 37ہزار کر دی گئی ہے۔ ہم نے کسی مزدور کو آج تک اُس کی تنخواہ حکومتی مقرر شدہ ملتے نہیں دیکھا۔ کارخانے بھی اشرافیہ کے ہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی اشرافیہ کی ملکیت ہیں۔ وہاں بھی جی بھر کرغریبوں کا استحصال ہوتا ہے۔ یہ ظلم کب تک چلے گا۔ وزیر خزانہ صاحب صرف یہ بتا دیتے کہ عوام کو بجلی اور گیس کے بِلوں میں کتنا ریلیف دیا گیا ہے۔ صحت اور تعلیم کی سہولتوں میں کتنا اضافہ کیا گیا ہے۔ دیگراُن کی ضروریاتِ زندگی میں کتنی آسانیاں پیدا کی گئی ہیں۔ صرف ”ٹیکسز کی بھرمار“ ۔ پہلے غریبوں کو سہولتیں فراہم کریں ، ٹیکسز کی بات بعد میں کریں۔ایک غریب شہری روٹی سے محروم ہے۔ بچوں کو تعلیم دلانے کے قابل نہیں۔ گیس اوربجلی نہ مِلنے کے باوجود ماہانہ اپنی گھریلو چیزیں بیچ کربِلز ادا کرتا ہے۔ اُس کا ٹیکسز سے کیا واسطہ؟
مختصر یہ کہ جناب حکمران طبقہ جو آئی ایم ایف و دیگرممالک سے قرض لیتا ہے اور پھر خود بھی ”مراعات“ کی مَد میں ملک کو لُوٹتا ہے اور اپنے من پسند افراد کو بھی لاکھوں کی تنخواہیں دے کر نوازتا ہے۔ پہلے اُن سے اُس قرض کا حساب لیا جائے۔ اُن کی مراعات ختم کی جائیں۔ اُن کی جائیدادوں اور تنخواہوں پر بھاری ٹیکس لگائے جائیں۔ ہزاروں بجلی کے یونٹ اُن کو جو مفت دیئے جاتے ہیں اُن سے واپس لئے جائیں۔ غریب عوام کو بھی ”انسان“ تسلیم کیا جائے۔ اُن کے دُکھوں، بے بسیوں کا عملی طورپر مداوا کیا جائے۔ اُن کو بھی وطنِ عزیز کا معززشہری تسلیم کر کے اُن کے حقوق دیئے جائیں۔ شاید ایسا کبھی بھی نہ ہو سکے۔ حکمران طبقہ اور غریب عوام میں جوفاصلے بڑھ چکے ہیں اُن کو ختم کرنے والا بھی تو کوئی ہونا چاہیے جو کہ اَب نظر بھی نہیںآتا۔بہرحال وزیر خزانہ صاحب آپ نے درحقیقت آئی ایم ایف کی اُمنگوں کے مطابق بجٹ دے کر اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ آپ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ غریبوں کا دُنیا میں اللہ والی ہے۔