جوڈیشل ریفارمز: وقت کی ضرورت

مضبوط ریاست ایک عمارت کی طرح ہوتی ہے جس کی مضبوطی تین ستونوں پر منحصر ہے مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ۔ ان میں سے اگر ایک بھی کمزور پڑ جائے تو ریاست کمزور پڑ جاتی ہے۔ جس طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عمارت کی تزئین و آرائش ضروری ہوتی ہے بالکل اسی طرح ریاست کے اداروں میں ریفارمز بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری عدلیہ کا نظام اتنا بوسیدہ ہوچکا ہے کہ جس میں انصاف کی فراہمی میں کئی سال لگ جاتے ہیں، سائلین کی جائیدادیں بک جاتی ہیں لیکن ان کے کیس کئی کئی سال عدالتوں میں چلتے رہتے ہیں۔ ہمارے 50فیصد سے زائد مسائل کی وجہ یہ ہے کہ ہم انصاف کی فراہمی میں بہت پیچھے ہیں۔
آپ اسی بات سے اندازہ لگائیں کہ لاءاینڈ جسٹس کمیشن رپورٹ 2024ءکیمطابق زیر التوا مقدمات کی تعداد ساڑھے 22  لاکھ 60 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ ایک مقدمے کا فیصلہ آنے میں اوسطاً مہینے نہیں کئی سال درکار ہیں اور 10 سال سے زیادہ کا عرصہ لگ جاتا ہے۔رپورٹ کے مطابق، 2023ءکے آخری 6 ماہ کے دوران زیر التوا مقدمات میں 3.9 فیصد اضافہ ہوا۔ کل زیر التوا مقدمات میں سے 82 فیصد ضلعی عدالتوں میں ہیں۔ 18 فیصد زیر التوا مقدمات اعلیٰ عدلیہ میں ہیں۔عالمی رینکنگ میں 130 ویں نمبر پر ہمارا عدلیہ کا نظام ہے اور جب اس کی وجہ پوچھی جائے تو توہینِ عدالت لگ جاتی ہے۔ معزز جج صاحبان کی شان میں گستاخی ہوجاتی ہے۔ بے شمار مفادِ عامہ کے ایسے کیسز ہے جن پر برسوں سے سٹے لیا ہوا ہے۔ حالیہ پنجاب حکومت کی جانب سے طلبہ کو بائیکس دینے کا معاملہ ہی کیوں نا ہو جو کو خالصتاً مفاد عامہ کا معاملہ تھا لیکن پنجاب حکومت کے اس احسن کام کو بھی عدالتی فیصلے کی نذر کیا گیا۔ دوسری جانب کئی کیسز میں تو ایسا ہوتا ہے کہ عدالتیں فیصلہ بروقت نہیں کر پاتیں اور جب کوئی کیس التوا کا شکار ہوتا ہے تو اس سے کوئی 6/5 افراد نہیں بلکہ پورے کے پورے خاندان متاثر ہوتے ہیں۔جب عدالتیں مجرمان کو سزائیں نہیں سنائے گی تو قانون سے ڈرے گا کون؟
اب اگر کوئی عدلیہ کے بوسیدہ نظام پر سوال کرے یا ان کا احتساب کرے تو اس پہ توہینِ عدالت لگا دی جاتی ہے۔ فیصل واوڈا کے معاملے کو ہی دیکھ لیں حالانکہ یہ اس کی ذات کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے پاکستانی قوم کا مسئلہ ہے۔ فیصل واوڈا کا قصور یہ ہے کہ اس نے جرا¿ت کرکے محترم جج صاحب کی دہری شہریت اور تعیناتی پر سوال کیا اور اس سے محترم جج صاحب کی شان میں گستاخی ہوگئی۔ اب حال یہ ہے کہ عدلیہ کی جانب سے مقننہ کے کاموں میں مداخلت شروع کردی گئی ہے اوراسٹیبلشمٹ کے نام پر حساس اداروں اور ان کے ذمہ داران کو لتاڑا جا رہا ہے۔ اور اگر ان ججز سے ان کی اپنی کارکردگی کا پوچھا جائے تو توہین عدالت کا کیس کر دیا جاتا ہے۔
اب وقت آچکا ہے کہ پاکستان میں عدالتی اصلاحات نافذ کی جائیں ورنہ غریب عوام اور یہ قوم کچہریوں اور عدالتوں کی چکی میں پس کر مرتے رہیں گے۔ اصلاحات میں سب سے اہم ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ ہائی کورٹ کے ججز کے تقرر کے لیے متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نام تجویز کرتے ہیں لیکن اس میں کوئی خاص معیار نہیں رکھا جاتا۔ اس کے بعد وہ نام جوڈیشل کمیشن میں جاتا ہے جس میں اس نام کو منظور کیا جاتا ہے یا نظر ثانی کے لیے واپس بھیجا جاتا ہے۔جوڈیشل کمیشن میں ججز کی اکثریت ہے جس کی وجہ سے کمیشن میں موجود بار کونسل، انتظامیہ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ کمیشن میں عدلیہ، بار کونسل، پارلیمان اور انتظامیہ کے نمائندوں کی تعداد برابر ہونی چاہیے تاکہ کوئی بھی اکثریت کی وجہ سے دوسرے کی رائے کو دبا نہ سکے اور ایک اتفاق رائے کے ساتھ ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تقرریاں کی جائیں۔
ججز کی تعیناتی کا ایک منظم اور شفاف طریقہ کار ہونا ضروری ہے جس میں اس کی تعلیمی قابلیت،اثاثوں کی چھان بین ،نفسیاتی و ذہنی حالت کیسی ہے،اس کی مذہبی یا سیاسی وابستگی کا کیا عالم ہے۔ کیا جس کو جج بنایا جا رہا ہے وہ غیر جانبداری سے قاضی کے عہدے سے انصاف کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ جب حکومت چلانے کے لیے کابینہ آئے روز سر جوڑ کر بیٹھ سکتی ہے، جب دفاعی معاملات کور کمانڈرز کانفرنس میں گاہے بگاہے زیر بحث لائے جاتے ہیں تو ایسے ہی عدالتی نظام میں اصلاحات لانے کے لیے کیوں غورو فکر نہیں کیا جاتا؟ کیوں زیرِ التوا کیسز ، ججز کی دہری شہریت، ججز کے اثاثوں اور تعیناتی پر بات نہیں کی جاتی؟
مذکورہ بالا حالات کے پیشِ نظر اب وقت آچکا ہے کہ ریاستِ پاکستان کو مضبوط بنانے کے لیے جوڈیشل ریفارمز کرنا ہوں گی کیونکہ جو ریاست انصاف کے نظام کو مضبوط نہیں کرپاتی وہ وقت کے ساتھ کمزور ہوتی چلی جاتی ہے، لہٰذا صاف شفاف اور غیر جانبدار عدالتی نظام کے لیے آئین اور قانون میں ترامیم بھی اس حوالے سے نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ججز کو چاہیے کہ آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے فیصلے صادر فرمائیں۔ اداروں پر الزام تراشی بند کریں اور اپنا کام آئین اور قانون کے مطابق کریں کیونکہ عام شہری یہ جاننے میں بالکل حق بجانب ہے کہ ہمارا عدالتی نظام 130ویں نمبر پر کیوں ہے، زیر التوا مقدمات کی تعداد ساڑھے 22  لاکھ 60 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے اس کا قصوروار کون ہے،ایک مقدمے کا فیصلہ آنے میں اوسطاً مہینے نہیں کئی سال درکار ہیں اور 10 سال سے زیادہ کا عرصہ لگ جاتا ہے آخر کیوں؟آخر ایسے کون سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے ہماری عدلیہ کی عالمی رینکنگ 130 سے بہتر ہو ان سوالوں پر بھی غور کرنا چاہیے تاکہ پاکستان کا نظام انصاف عام عوام کے لیے امید کی کرن بن سکے۔

ای پیپر دی نیشن