مو لا نا محمد امجد خان
فریضہ ء حج اور اس کے ایام اس قدر اہمیت کے حامل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان ایام کی قسمیں سورت الفجر کی ابتدائی آیات میں اٹھائی ہیں۔مفسرین نے فرمایا کہ نوں ذوالحجہ کی اور بعد مفسرین کے نزدیک عید کی فجر کی قسم اٹھائی ہے اور دس راتوں کی بھی قسم اٹھائی ہے۔جناب رسول اللہ ؐ نے فرمایا یہ دن اتنے برکت والے ہیں۔ اس کے ایک دن کے روزے پر ایک سال کے روزوںکے برابر ثواب ہے اور رات کی عبادت پر لیلتہ القدر کے برابر ثواب ہے۔ماہ ذوالحجہ قمری سال کا آخری مہینہ ہے رب ذوالجلال نے جس طرح سال کے بارہ مہینوں میں سے رمضان المبارک کو اور پھر رمضان المبارک کے تین عشروں میں سے آخری عشرہ کو جو فضیلت بخشی ہے بعینہ ماہ ذوالحجہ کے تین عشروں میں سے پہلے عشرہ کو بھی خاص فضیلت سے نوازاگیا ہے اور اس عشرہ میں اعمال پر خاص اجروثواب رکھا گیا ہے ،حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے رویت ہے کہ رسول اللہ ؐنے ارشاد فر مایا کہ :اللہ تعالی کی بار گاہ میں دوسرے ایام کا کو ئی عمل عشرہ ذوالحجہ یکم ذوالحجہ سے دس ذوالحجہ کے دوران نیک عمل سے بڑھ کر پسندید ہ نہیں صحابہ کرام نے عرض کیا :یار سول اللہ کیا یہ جہاد فی سبیل اللہ سے بھی بڑھ کر ہے ;آپ ؐ نے فر مایا : جہاد فی سبیل اللہ سے بھی بڑھ کر ہے ،ہاں جو شخص جان اور مال لے کر اللہ کی راہ میں نکلا ،پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آیا ، سب کچھ اللہ کے راستے میں قر بان کر دیا ،بے شک یہ سب سے بڑھ کر ہے ۔
حج کی ادائیگی ہرمقام پر عشق نظر آتا ہے بقول خطیب اسلام کہ حج چند عاشقوں کے عشق کے مجموعے کانام ہے ،حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہؓ نے مختلف جگہوں پر عشق کی انتہا کی اللہ تعالیٰ کو وہ عشق اس قدر پسند آیا کہ اپنے محبوب آخری نبیؐ حضرت محمدؐ جو حضرت اسماعیلؑ کی نسل سے تشریف لائے ان کی امت کے لیے ان اداؤں کوفریضہ بنا دیا اور اسے ہم حج کہتے ہیں۔ عشق تو آپ کے جد امجد حضرت ابراہیم کا ہے لیکن اس امت کے لئے اجرو ثواب اس وقت بنا جب آمنہ کے لعل نے وہ عاشقانہ کام سرانجام دیئے۔ حضرت مولانا محمد اجمل خان فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان اعمال کواسلام کے فرائض میں سے ایک فرض کے طور پرشامل کردیا اور اس محبوب عمل کو ہر صاحب حیثیت مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض کیا اور آپ کی ذات بابرکات کی وجہ اجر یہ رکھ دیاکہ جب حاجی فسق و فجور سے بچ کر
اللہ کے محبوب کے طریقوں کے مطابق مکہ منی عرفات مزدلفہ میں فرائض واجبات اور سنن کو زندہ کرے گا تو اس بدلہ یہ ہوگاکہ حاجی گھر اس حال میں واپس لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اسے ابھی جنم دیا ہو یعنی جسطرح بچہ گناہوں سے پاک ہوتا ہے اور حاجی بھی اسی طرح واپس لوٹتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے سارے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔
عشرہ ذوالحجہ سال کے بارہ مہینوں میں بڑی ممتاز حیثیت رکھتا ہے ،۳۰پارہ میں سورۃ الفجر کی آیات الفجر میں اللہ رب العزت نے فجراور دس راتوں کی قسم کھائی اور کسی چیز پر اللہ تعالی کا قسم کھانا اس چیز کی عزت اور حرمت پر دلالت کر تا ہے تو اللہ تعالی نے سورۃ الفجر میں قسم کھائی ہے اس بارے میں مفسرین کی ایک بڑی جماعت کا قول ہے کہ اس سے مراد ماہ ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں اسی طرح ایک اور روایت میں ان دس ایام کی فضیلت واہمیت بیان فر ماتے ہوئے آپ ; نے فر ما یا کہ : دنوں میں سے کسی دن میں بھی بندے کا عبادت کر نا اللہ کو اتنا محبوب نہیں جتنا عشرہ ذوالحجہ میں محبوب ہے ،ایک اور حدیث میں جناب نبی کریم ؐ نے یہ بھی فر مایا کہ :اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ہر رات کے نوافل شب قدر کے نوافل کے برابر ہے یعنی ایک روزے کا ثواب بڑھا کر ایک سال کے روزوں کے ثواب کے برابر کر دیا اور ان راتوں میں سے ایک رات میں بھی اگر عبادت کی توفیق ہو گی وہ اس طرح ہے جیسے لیلۃ القدر میں عبادت کر لی ہو۔عشرہ ذوالحجہ کا خاص الخاص عمل حج ہے اور یہ صاحب استطا عت مسلمان پر زندگی میں صرف ایک ہی دفعہ فرض کیا گیا ہے ،لہذا اس کی خاص برکات صرف وہی لوگ حاصل کر سکتے ہیں جو بیت اللہ میں حاضر ہو کر حج کریں۔ لیکن اللہ نے اپنے فضل کرم اور بے انتہا رحمت سے تمام اہل ایمان کو اس بات کاموقع عنایت فر ما دیا کہ وہ اپنے مقام پر رہ کر بھی حجاج کرام سے ایک طرح کی نسبت پیدا کر لیں اور ان کے کچھ اعمال میں شریک ہوجائیں ۔لہذا ذوالحجہ کا چاند دیکھتے ہی جو حکم مسلمانوں کو سب سے پہلے ملتاہے وہ یہ ہے کہ ام الموَمنین حضرت سلمہ ؓ سے روایت ہے فر ماتی ہیں کہ رسول للہ نے فر ما یا کہ : جب عشرہ ذوالحجہ شروع ہو جائے اور تم میں کسی کا قربانی کر نے کا اردہ ہو تو قر بانی کر نے تک وہ جسم کے کسی حصہ کے بال اور ناخن نہ کاٹے۔قربانی کر نے والے کے لئے مستحب ہے کہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قر بانی کر نے تک نہ تو وہ اپنے ناخن کترے نہ سر کے بال مونڈے اورقر بانی کر نے کے بعد ناخن تراشے اور بال کٹوائے۔
یوم عرفہ ماہ ذوالحجہ کی نو تاریخ کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ فر ماتی ہیں رسول کریم ؐ نے فر مایا کہ : ایسا کوئی دن نہیں جس میں اللہ تعالی بندہ کو عرفہ کے دن سے زیادہ آ گ سے آزاد کر تا ہے یعنی عر فہ کے دن اللہ تعالی سب دنوں سے زیادہ بندوں کو آگ سے نجات کا پروانہ عطا فر ماتے ہیں اور بلا شبہ اس دن اللہ تعالی اپنی رحمت ومغفرت کے ساتھ بندوں کے قریب ہوتا ہے۔ پھر حج کر نے والوں کی طرف متوجہ ہو تے ہیں اور فر ماتے ہیں یہ لوگ کیا چاہتے ہیں جو کچھ بھی چاہتے ہیں میں انہیں دوں گا۔
ایک اور حدیث میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐ نے فر ما یا کہ : عرفہ کے دن اللہ تعالی شان اقدس کے مطابق آسمان دنیا پر نزول فر ماتے ہیں اور پھر فرشتوں کے سامنے حاجیوں پر فخر کرتے ہیں اور فر ماتے ہیں میرے بندوں کی طرف تو دیکھو ! یہ میر ے پاس پر ا گندا بال ،گرد آلود اور لبیک کو ذکر کے ساتھ آوزیں بلند کرتے ہوئے دور دور سے آتی ہیں میں تمہیں اس بات پر گواہ بنا تا ہوں میں نے انہیں بخش دیا ، یہ سن کر فرشتے کہتے ہیں پروردگار ! ان میں فلاں شخص وہ بھی ہے جس طرف گناہ کی نسبت کی جاتی ہے اور فلاں شخص اور فلاں عورت وہ بھی ہیں جو گنہگار ہیں۔ آپ ؐ نے فر ما یا کہ اللہ تعالی فر ماتے ہیں کہ میں نے انھیں بھی بخش دیا۔ پھر رسول اللہ نے فر ما یا کہ ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں یوم عرفہ کے برابر لو گوں کو نجات کا پروانہ عطا کیا جا تا ہو۔ اس طرح ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فر ما یا کہ : دعاؤں میں بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور بہترین بات وہ ہے جو میں نے کہی اور مجھ سے پہلے انبیا ء ؑنے کہی (اور وہ یہ ہے )
لا الہ الا اللہ وحد ہ لاشریک لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شی ء قدیر۔
یوم عرفہ کے روزہ کے بارے میں نبی کریم ؐ نے فر مایا ،، یوم عرفہ یعنی نو ذوالحجہ کا روزہ ایک سال گذشتہ اورایک سال آئند ہ کے گناہوں کفارہ ہے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے جن احادیث میں کسی نیک عمل سے گناہ کے معاف ہو نے کا ذکر ہے ان سے صغیرہ گناہ مراد ہیں اور جہاں تک کبیرہ گناہوں کا تعلق ہے وہ بغیر توبہ و ندامت کے کسی عمل سے معاف نہیں ہوتے اور پھر توبہ سے بھی وہ گناہ معاف ہوتے ہیں جن تعلق حقوق اللہ سے ہو نہ کہ حقوق العباد سے۔
عشرہ ذوالحجہ کا تیسرا عمل تکبیر تشریق ہے جو یوم عرفہ یعنی نو یں ذوالحجہ کے دن نماز فجر سے شروع ہو کر تیرہ تاریخ کی عصر تک جاری رہتی ہے اور تکبیرات فرض نماز کے بعد ایک مر تبہ پڑھنا مفتی بہ قول کے مطابق واجب ہے ،تکبیر تشریق کے الفاظ یہ ہیں :اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔ اس تکبیر کو مردوں کے لیے متوسط بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے۔تکبیرات تشریق مر د ،عورت،شہری ،دہیاتی ،مقیم ومسافر سب پر واجب ہے البتہ مر د متوسط بلند آواز اور عورت آہستہ آواز سے پڑھے۔