اسلام آباد (خبرنگار) ایوان بالا میں اراکین نے بجٹ کو آئی ایم ایف اور اشرافیہ کا بجٹ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔ اراکین کا کہنا ہے کہ حکومت نے ٹیکسوں کی بھرمار کرکے عوام کی زندگی مزید مشکل بنا دی ہے اس سے ملک میں بیروزگاری اور جرائم میں اضافہ ہوگا۔ گزشتہ روز ایوان بالا میں بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے سینیٹر راجہ ناصر عباس نے کہا ایسے بجٹ سے مشکلات پیدا ہوتی ہیں‘ تنخواہ دارطبقے پر ٹیکسز جان لیوا ہیں، اس سے مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ سینیٹر مولانا عطاالرحمن نے کہا حکومتی اداروں کی کارکردگی کی بنیاد پر بجٹ بنانا چاہیے مگر یہاں پر بجٹ بندوق کے زور پر اسٹیبلشمنٹ کیلئے بنایا گیا۔ انہوں نے کہا خیبر پی کے میں قبائلی اضلاع کو بہت جلد صوبے میں شامل کیا گیا اور اب فنڈز نہیں دیئے جارہے۔ آج مودی اپنی تقریر میں کہتے ہیں کہ اب پاکستان سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ یہ اب صرف اپنے ملک پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ سینیٹر سرمدعلی نے کہا بجٹ میں کتابوں اور سٹیشنری سیلز ٹیکس عائد کردیا گیا ہے جس سے تعلیمی اخراجات بڑھیں گے‘ یہ والدین کے اوپر ظلم ہے‘ حکومت اس فیصلے پر نظرثانی کریں وگرنہ بہت سے اخبارات بند ہو جائیں گے۔ سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا گزشتہ چھ سالوں میں7 وزیرخزانہ تبدیل ہوئے اور ان میں اکثر کسی نہ کسی کے منظور نظر ہوتے تھے۔ انہوں نے کہا اگر ملک میں ٹیکسز پر ٹیکسز لگائے جائیں تو ملک کسی صورت ترقی نہیں کرسکتا۔ اس وقت نہ کوئی ویژن ہے اور نہ ہی اصلاحات کی جارہی ہیں۔ سینیٹر ڈاکٹر زرقہ سہروردی نے کہاکہ ایوان میں اپوزیشن کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی ہے اور کمیٹیوں کی چیئرمین شپ میں حصہ نہیں دیا جارہا۔ حکومت اشرافیہ پر ٹیکس عائد کیوں نہیں کر رہی۔ انہوںنے کہاکہ اگر ہم پاکستانی ہیں تو ہمیں پاکستان کا حق ادا کرنا ہوگا‘ حکمرانوں نے آج تک کوئی منی ٹریل نہیں دیا۔ آئے ہیں اور ہم پر ایسے لوگ مسلط ہیں جو ملک کو گِدھوں کی طرح نوچ رہے ہیں۔ سینیٹر ناصربٹ نے کہاکہ عمران نیازی کے دور میں شہبازشریف نے مکمل تعاون کی پیشکش کی تھی مگر طعنہ دیا گیا کہ این آر او مانگ رہے ہیں۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہاکہ بجٹ تقاریر بہت سنی ہیں تاہم یہ بجٹ بہت ہی عجیب ہے‘ مجھے سمجھ نہیں آرہی ہے کہ کس طرح کا بجٹ ہے‘ یہ عام عوام کا بجٹ نہیں بلکہ بھکاری حکومت کا بجٹ ہے۔ سینیٹر فوزیہ ارشد نے کہا موجودہ بجٹ سے عوام کو مزید مشکلات درپیش ہونگی‘ اس سے ملک میں جرائم میں مزید اضافہ ہوگا۔ بعدازاں اجلاس 20جون شام 5بجے تک ملتوی کردیا گیا۔