لاہور (خبرنگار) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ہتک عزت قانون کے خلاف صحافی تنظیموں کی درخواست پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے 4 جولائی کو جواب طلب کرلیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کئی ایسے قوانین موجود ہیں جس میں حکومت ہی پراسیکیوٹر اور خود ہی منصف ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اس قانون پر کیسے حکم امتناعی جاری کر سکتے ہیں؟۔ سوشل میڈیا نے تو ہر شخص کو صحافی بنا دیا ہے، عام آدمی کا تحفظ بھی تو ہونا چاہیے، یہ کون سی صحافت ہے کہ کہا جائے کورٹ میں وکیل سے سب دب گئے، جج بیک فٹ پر چلے گئے، روز کیسوں کے بعد پریس کانفرنسیں ہوتی ہیں اور جو کہا جاتا ہے وہ سب کے سامنے ہے، کیا ان کو نہیں روکا جانا چاہیے، اگر آپ ثابت کر دیں کہ قانون سازی کا طریقہ ٹھیک نہیں تو پھر سب کچھ ہی ختم ہو جائے گا، آخر اتنی عجلت میں قانون سازی کی کیا ضرورت تھی، ان نکات پر اگلی سماعت پر دلائل دیں۔ وکیل پریس کلب نے کہا کہ حکومت نے مشاورت کی اور نہ ہی اس میں موجود سقم دور کئے، یہ قانون بنیادی حقوق کے خلاف ہے، اس قانون کے تحت ملزم کو شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا جو آئینی تقاضہ ہے، قانون بناتے وقت بنیادی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، اس ایکٹ کے ذریعے حکومت پروفیشنل صحافیوں کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ اس قانون کا اطلاق پنجاب میں ہوتا ہے، کیا کے پی کے جا کر بندہ کچھ بھی کر سکتا ہے، پہلے قوانین وفاقی سطح پر بنتے تھے جو پورے ملک میں لاگو ہوتے تھے۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ایسا قانون ہمارے ملک میں ہونا چاہئے، جس کا دل کرتا ہے موبائل پکڑ کر ویڈیو بنا دیتا ہے، جس پر وکیل نے کہا کہ بالکل ایسا قانون ہونا چاہئے، پیکا ایکٹ پہلے سے موجود ہے۔