پچھلے کچھ دنوں سے سیاست میں ’’روحانیت‘‘ کا عنصر در آیا ہے۔ اس سلسلے کا سب سے پہلا بیان میاں شہباز شریف نے دیا تھا کہ ’’لانگ مارچ میں ہمارے ساتھ بے نظیر بھٹو کی روح بھی شریک ہو گی‘‘ اس سے اگلے روز میاں نواز شریف نے فرمایا: ’’زرداری میں مشرف کی روح بھٹک رہی ہے۔‘‘ جس کا جواب پرویز مشرف نے براہ راست یوں دیا تھا: ’’میری روح بڑی مضبوط ہے۔ ایسا نہ ہو کہ میری روح نواز شریف میں داخل ہو جائے‘‘…
بچپن میں نے ہم نے ’’داستان امیر حمزہ‘‘ اور ’’طلسم ہوشربا‘‘ (بچوں کیلئے) پڑھی تھیں یہ دونوں ایک ہی داستان کے دو حصے ہیں۔ اور اس قدر دلچسپ اور ’’مزیدار‘‘ ہیں کہ میں نے یہ کتابیں تقریباً دس دس مرتبہ پڑھیں۔ ’’طلسم ہوشربا‘‘ کا ایک کردار تھا زال جادوگر… اس کی خوبی یہ تھی کہ جب یہ مرنے لگتا تو کسی نوجوان اور حسین پیکر کا انتخاب کرکے اپنے لہو کے چند قطرے اس کی رگوں میں داخل کر دیتا اور مر جاتا پھر اس نئے پیکر اور تروتازہ جسم کے ساتھ اٹھتا اور اپنی جادو گریاں جاری رکھتا۔ پرویز مشرف کی خوبی یہ ہے… میں سمجھتا ہوں یہ زال جادوگر سے بھی بڑے جادوگر ہیں کہ خود بھی ابھی تک ’’فٹ فاٹ‘‘ اور زندہ ہیں اور اپنی روح بھی صدر زرداری میں داخل کر چکے ہیں۔ اس طرح ابھی تک ایوان صدر میں پرویز مشرف ہی براجمان ہیں جو ڈکٹیٹر اور آمر تھے۔ لیکن اس مرتبہ انہوں نے آصف زرداری کے پیکر کا انتخاب کیا ہے جو NRO واشنگ پاؤڈر سے دھلا ہوا لباس پہنے بیٹھے ہیں اور خود کو جمہوری صدر کہلواتے ہیں اور ایک جمہوری عمل کے تحت ہی ان کی (یعنی بے نظیر بھٹو کی) پارٹی ایوان اقتدار تک پہنچ سکی۔ پھر جوں جوں لانگ مارچ کا وقت قریب آیا ہے بلکہ اب تو یہ عمل جاری ہو چکا ہے حکومت کی بوکھلاہٹ بھی بڑھتی گئی ہے… وکلاء اور سیاسی رہنماؤں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ… سڑکیں اور راستے کنٹینروں اور دیگر رکاوٹوں سے بند کرنے اور لانگ مارچ کو فلاپ کرنے کیلئے جتنے بھی اوچھے اور غیر جمہوری ہتھکنڈے ہیں… وہ آزمائے جا رہے ہیں۔ گویا سول آمریت کا دور دورہ ہے۔ لیکن کیا کیجئے… کہ عوامی سیلاب کے آگے کوئی رکاوٹ کوئی بندش زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی… انہی لوگوں کے بارے میں تو علامہ اقبال نے کہا تھا:
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
آنے والے دنوں کی ایک دھندلی سی تصویر آپ کو دکھاؤں؟… میں کوئی پیر مرشد‘ ولی درویش یا نجومی نہیں ہوں… صرف حالات کو مدنظر رکھ کر تھوڑا سا غور کریں تو… یہ صورت نظر آتی ہے۔ بقول منیر نیازی۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
بچپن میں نے ہم نے ’’داستان امیر حمزہ‘‘ اور ’’طلسم ہوشربا‘‘ (بچوں کیلئے) پڑھی تھیں یہ دونوں ایک ہی داستان کے دو حصے ہیں۔ اور اس قدر دلچسپ اور ’’مزیدار‘‘ ہیں کہ میں نے یہ کتابیں تقریباً دس دس مرتبہ پڑھیں۔ ’’طلسم ہوشربا‘‘ کا ایک کردار تھا زال جادوگر… اس کی خوبی یہ تھی کہ جب یہ مرنے لگتا تو کسی نوجوان اور حسین پیکر کا انتخاب کرکے اپنے لہو کے چند قطرے اس کی رگوں میں داخل کر دیتا اور مر جاتا پھر اس نئے پیکر اور تروتازہ جسم کے ساتھ اٹھتا اور اپنی جادو گریاں جاری رکھتا۔ پرویز مشرف کی خوبی یہ ہے… میں سمجھتا ہوں یہ زال جادوگر سے بھی بڑے جادوگر ہیں کہ خود بھی ابھی تک ’’فٹ فاٹ‘‘ اور زندہ ہیں اور اپنی روح بھی صدر زرداری میں داخل کر چکے ہیں۔ اس طرح ابھی تک ایوان صدر میں پرویز مشرف ہی براجمان ہیں جو ڈکٹیٹر اور آمر تھے۔ لیکن اس مرتبہ انہوں نے آصف زرداری کے پیکر کا انتخاب کیا ہے جو NRO واشنگ پاؤڈر سے دھلا ہوا لباس پہنے بیٹھے ہیں اور خود کو جمہوری صدر کہلواتے ہیں اور ایک جمہوری عمل کے تحت ہی ان کی (یعنی بے نظیر بھٹو کی) پارٹی ایوان اقتدار تک پہنچ سکی۔ پھر جوں جوں لانگ مارچ کا وقت قریب آیا ہے بلکہ اب تو یہ عمل جاری ہو چکا ہے حکومت کی بوکھلاہٹ بھی بڑھتی گئی ہے… وکلاء اور سیاسی رہنماؤں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ… سڑکیں اور راستے کنٹینروں اور دیگر رکاوٹوں سے بند کرنے اور لانگ مارچ کو فلاپ کرنے کیلئے جتنے بھی اوچھے اور غیر جمہوری ہتھکنڈے ہیں… وہ آزمائے جا رہے ہیں۔ گویا سول آمریت کا دور دورہ ہے۔ لیکن کیا کیجئے… کہ عوامی سیلاب کے آگے کوئی رکاوٹ کوئی بندش زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی… انہی لوگوں کے بارے میں تو علامہ اقبال نے کہا تھا:
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
آنے والے دنوں کی ایک دھندلی سی تصویر آپ کو دکھاؤں؟… میں کوئی پیر مرشد‘ ولی درویش یا نجومی نہیں ہوں… صرف حالات کو مدنظر رکھ کر تھوڑا سا غور کریں تو… یہ صورت نظر آتی ہے۔ بقول منیر نیازی۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا