حضرت قائد اعظمؒ نے برصغیر میں سچائی کی سیاست کی بنیاد رکھی‘ حضرت قائد اعظمؒ کا تصور سیاست یہ تھا کہ اگر آپ انگریزوں سے جھوٹ بولیں گے یا ان سے فریب کاری سے کام لیں گے تو انگریز ان شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین ہیں اور آپ کو ان حوالوں سے شکست دے دیںگے‘ ہندوؤں کے ساتھ بھی آپ اگر جھوٹ‘ مکاری یا فریب سے کام لیں گے تو وہ اس ضمن میں ایکسپرٹ حیثیت کے مالک ہیں لہٰذا آپ کو مات دے دیں گے۔ لہٰذا اسلامیان ہند کے لئے ضروری ہے کہ وہ برصغیر میں سچ اور صداقت کی سیاست سے کام لیں۔ یہ دونوں قومیں آپ سے شکست کھا جائیں گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت قائد اعظمؒ نے پاکستان کے لئے سچ کی سیاست کی بنیاد رکھی اور پاکستان تخلیق کر دیا۔ ہمیں دکھ اور افسوس ہوتا ہے اس دور حاضر کے سیاسی حکمرانوں نے کہ ہندوؤں اور انگریزوں کی جھوٹ کی سیاست کو بھی مات دے دیدی ہے۔ ہمارے صدر پاکستان نے جس طرح میثاق جمہوریت میں طے کردہ اصولوں کو پامال کیا ہے اور جس طرح آزاد عدلیہ کے قیام کی راہ میں کوہ ہمالیہ بن گئے ہیں۔ ہم انہیں کیا عرض کریں تاریخ اپنا حصہ ادا کرے گی۔
جب پاکستان معرض وجود میں آ گیا تو ہندوؤں نے سینوں پر سانپ لوٹ رہے تھے‘ مسلمان ہند کو پنجہ استبداد سے چھٹکارا مل گیا تھا تو ڈاکٹر شیام پرشاد مکرجی‘ یہ بیان دے رہا تھا۔
’’ہمارا نصب العین یہ ہونا چاہئے کہ پاکستان کو پھر سے ہندوستان کا حصہ بنا لیا جائے۔ اس حقیقت کے متعلق میرے دل میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ ایسا ہو کر رہے گا۔ خواہ یہ معاشی دباؤ سے ہو یا سیاسی دباؤ سے یا اس کے لئے دیگر ذرائع استعمال کرنے پڑیں۔ راجہ مہندر پرتاب نے 1950ء میں اپنی قوم کو اس طرح مشورہ دیا۔
’’جب تک پاکستان کا وجود ختم نہیں ہو جاتا ہمارا ملک کوئی ترقی نہیں کر سکتا۔ حالات اس طرح بدل رہے ہیں کہ مجھے یقین ہو چلا جا رہا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں جنگ لاینفک ہو گئی ہے۔ بنابریں میں حکومت کو مشورہ دوں گا کہ وہ افغانستان کو اپنے ساتھ ملا کر پاکستان کو ختم کر دے۔ ہمارے حکومتی سربراہان یہ کام خود ہی سرانجام دے رہے ہیں اب راجہ مہندر پرتاب اور شیام پرشاد مکرجی کو تکلیف نہیں کرنی پڑے گی۔ اب تو امریکن صدر اوباما نے بھی کہہ دیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے پالیسی تبدیل کرنی پڑے گی۔ ان حالات میں قوم کیا فیصلہ کرتی ہے؟
حضرت علامہ اقبال کا فرمان ہے:
فرہاد کی خارا شکنی زندہ ہے اب تک
باقی نہیں دنیا میں ملوکیت پرویز!