دکھی دلوں کے مسیحا میجر رشید وڑائچ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے سوا ماہ سے زائد کا وقت گزر چکا ہے۔ آج ان کی رسم چہلم ہے مگر میجر رشید وڑائچ صاحب کے پیاروں‘ دوستوں اور چاہنے والوں کو اب بھی یقین نہیں کہ وہ اگلے جہاں سدھار کر اللہ کے مہمان بن چکے ہیں۔ انہوں نے دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے جو شمع جلائی تھی وہ آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ روشن ہے۔ مرحوم نے اپنی زندگی ہی میں اپنی ساری جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر اس کی آمدن یتیموں‘ بیواؤں اور غریبوں کے لئے وقف کر دی تھی۔ گذشتہ کئی برسوں سے ان کا معمول تھا کہ وہ رات بھر جاگ کر تقریباً 3 سو افراد کے لئے کھانا تیار کرواتے جس میں نان‘ حلوہ‘ حلیم اور چائے وغیرہ شامل ہوتی اور پھر مسجد سے حی الفلاح کی صدا بلند ہوتے ہی نماز کی ادائیگی کے بعد چوک چوبرجی چلے جاتے جہاں دوسرے شہروں سے آئے ہوئے سینکڑوں مزدور گرمی اور سردی میں کھلے آسمان تلے پارک اور فٹ پاتھ پر سوتے ہیں وہ انہیں ناشتہ کرواتے‘ انہوں نے ٹرسٹ کی آمدن کا ایک بڑا حصہ اپنے گاؤں 95 چک جنوبی سرگودھا کے غریبوں اور محتاجوں کیلئے بھی مختص کر رکھا تھا۔ ہر ماہ ان کی اہلیہ اور بیٹی گاؤں جاتیں اور بے سہاروں کی امانتیں لوٹا کر واپس چلی آتیں۔
1971ء کی جنگ میں وہ بھارت کے آگرہ قلعہ کے قیدی تھے پھر اس کے بعد انہوں نے زندگی بھر نت نئے معرکے سرانجام دیئے۔ 10 سال قبل نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ ان کی زندگی میں ایک بڑا ٹرن لے کر آیا۔ وہ وزیر اعظم معائنہ کمشن کے ڈائریکٹر جنرل تھے وہ اغواء شدہ بچوں کی بازیابی کیلئے بیگار کیمپوں کے خلاف آپریشن کرنا چاہتے تھے۔ اس دوران جنرل پرویز مشرف نے شب خون مار کر نواز حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ طیارہ سازش کیس مشرف کے اہم ملزموں میں میجر صاحب کا نام بھی شامل تھا۔ کچھ عرصہ بعد انہیں کنگز پارٹی میں شمولیت کے لئے مجبور کیا گیا مگر آمر کا پیروکار بننے کے بجائے وہ سیاست سے تائب ہو گئے اللہ سے لو لگا لی اور اپنے شب و روز خلق خدا کی خدمت کیلئے وقف کر دیئے۔
پاکستان میں فلاحی معاشرہ کا قیام‘ ان کا سب سے بڑا خواب تھا۔ وہ مسجد کو مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز‘ خوشیوں کا گہوارہ اور دکھی دلوں کا سہارا بنانا چاہتے تھے۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے مسجد مرکز تحریک شروع کر رکھی تھی ان کا کہنا تھا کہ جرائم‘ لڑائی جھگڑا‘ لین دین‘ اور دیگر معاملات معززین علاقہ مسجد میں بیٹھ کر حل کر سکتے ہیں۔ اس سے ان کی تھانہ کچہری سے جان چھوٹ جائے گی۔
میجر صاحب نے ایلیٹ کلاس کو فلاحی معاشرہ کے قیام کے لئے مدد و معاون اور مسجد مرکز تحریک کی جانب راغب کرنے کیلئے لاہور جمخانہ کی ممبر شپ بھی لے رکھی تھی۔ وہ جب بھی وہاں جاتے تو کچھ لٹریچر بھی اپنے ساتھ لے جاتے۔ وہاں موجود بڑے بڑے لاٹ صاحبوں کو پمفلٹ اور کتابچے بانٹتے اور ان سے بحث و مباحثہ کرتے کہ مسجد مرکز پروگرام پر عملدرآمد کرنے سے پاکستان مثالی فلاحی مملکت بن جائے گا۔
اپنے بڑے بھائی میجر رشید وڑائچ کے فلاحی کاموں سے متاثر ہو کر میں نے راولپنڈی میں غریب مزدوروں کو صبح کے ناشتہ کی فراہمی کا پروگرام بنایا۔ اس ضمن میں ہم نے کئی بار شہر کے چوکوں‘ چوراہوں اور مزدوروں کے ٹھکانوں کا دورہ کیا اور طے پایا کہ آئندہ گرمیوں میں راولپنڈی کے غریب مزدوروں کو بھی صبح کا ناشتہ فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔
میجر صاحب کو ہسپتال میں علاج کے دوران جب آپریشن کیلئے لے جایا گیا تو اس وقت ان کی اہلیہ‘ بیٹی اور دیگر بہن بھائی بھی وہاں موجود تھے انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ نصراللہ ایک بات یاد رکھنا میں نے زندگی میں غریبوں کی ویلفیئر کا جو کام شروع کر رکھا ہے اسے میرے مرنے کے بعد بھی جاری رکھنا۔ بلھے شاہ نے ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا تھا!
بلھے شاہ اساں مرنا نئیں
گور پیا کوئی ہور
1971ء کی جنگ میں وہ بھارت کے آگرہ قلعہ کے قیدی تھے پھر اس کے بعد انہوں نے زندگی بھر نت نئے معرکے سرانجام دیئے۔ 10 سال قبل نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ ان کی زندگی میں ایک بڑا ٹرن لے کر آیا۔ وہ وزیر اعظم معائنہ کمشن کے ڈائریکٹر جنرل تھے وہ اغواء شدہ بچوں کی بازیابی کیلئے بیگار کیمپوں کے خلاف آپریشن کرنا چاہتے تھے۔ اس دوران جنرل پرویز مشرف نے شب خون مار کر نواز حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ طیارہ سازش کیس مشرف کے اہم ملزموں میں میجر صاحب کا نام بھی شامل تھا۔ کچھ عرصہ بعد انہیں کنگز پارٹی میں شمولیت کے لئے مجبور کیا گیا مگر آمر کا پیروکار بننے کے بجائے وہ سیاست سے تائب ہو گئے اللہ سے لو لگا لی اور اپنے شب و روز خلق خدا کی خدمت کیلئے وقف کر دیئے۔
پاکستان میں فلاحی معاشرہ کا قیام‘ ان کا سب سے بڑا خواب تھا۔ وہ مسجد کو مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز‘ خوشیوں کا گہوارہ اور دکھی دلوں کا سہارا بنانا چاہتے تھے۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے مسجد مرکز تحریک شروع کر رکھی تھی ان کا کہنا تھا کہ جرائم‘ لڑائی جھگڑا‘ لین دین‘ اور دیگر معاملات معززین علاقہ مسجد میں بیٹھ کر حل کر سکتے ہیں۔ اس سے ان کی تھانہ کچہری سے جان چھوٹ جائے گی۔
میجر صاحب نے ایلیٹ کلاس کو فلاحی معاشرہ کے قیام کے لئے مدد و معاون اور مسجد مرکز تحریک کی جانب راغب کرنے کیلئے لاہور جمخانہ کی ممبر شپ بھی لے رکھی تھی۔ وہ جب بھی وہاں جاتے تو کچھ لٹریچر بھی اپنے ساتھ لے جاتے۔ وہاں موجود بڑے بڑے لاٹ صاحبوں کو پمفلٹ اور کتابچے بانٹتے اور ان سے بحث و مباحثہ کرتے کہ مسجد مرکز پروگرام پر عملدرآمد کرنے سے پاکستان مثالی فلاحی مملکت بن جائے گا۔
اپنے بڑے بھائی میجر رشید وڑائچ کے فلاحی کاموں سے متاثر ہو کر میں نے راولپنڈی میں غریب مزدوروں کو صبح کے ناشتہ کی فراہمی کا پروگرام بنایا۔ اس ضمن میں ہم نے کئی بار شہر کے چوکوں‘ چوراہوں اور مزدوروں کے ٹھکانوں کا دورہ کیا اور طے پایا کہ آئندہ گرمیوں میں راولپنڈی کے غریب مزدوروں کو بھی صبح کا ناشتہ فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔
میجر صاحب کو ہسپتال میں علاج کے دوران جب آپریشن کیلئے لے جایا گیا تو اس وقت ان کی اہلیہ‘ بیٹی اور دیگر بہن بھائی بھی وہاں موجود تھے انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ نصراللہ ایک بات یاد رکھنا میں نے زندگی میں غریبوں کی ویلفیئر کا جو کام شروع کر رکھا ہے اسے میرے مرنے کے بعد بھی جاری رکھنا۔ بلھے شاہ نے ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا تھا!
بلھے شاہ اساں مرنا نئیں
گور پیا کوئی ہور