گزشتہ دنوںکشمیر سنٹر برسلز اور ہیومن رائٹس ایسوسی ایشن آف امریکن انٹرنیشنل کونسل فار ہیومن رائٹس کے تعاون سے انسانی حقوق کمیشن کے ہیڈ کوارٹر جنیوا میں خواتین کے حقوق اور ڈے آف وومن کے موقع پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے یو این مبصرین نے دنیا میں خواتین پر ہونے والے ظلم و بربریت پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ سیمینار کے پہلے سیشن سے مس ایشاءدے خان (یو این شعبہ خواتین کی انچارج) میں انجیلا لے نوس مستقل مندوب برائے یو این اور ڈپٹی سفیر برائے فلسطین فار یو این مشن مسٹر ایماد ظوہیری نے کہا کہ خواتین پر متنازعہ علاقوں اور ممالک میں زبردست زیادتیاں جاری ہیں جن کے سدباب کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا۔ آج کے دن خواتین ڈے منانے کا مقصد ان کے لئے ٹھوس بنیادوں پر لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے۔ افسوس کا مقام ہے کہ خواتین ہمارا بازو ہونے کے باوجود ظلم سہہ رہی ہےں۔ یو این نے ہر موقع پر انسانیت کی بات کی اور انسانیت کے حقوق کے لئے پالیسیاں مرتب کیں لیکن افسوس کہ اب بھی ہمارے درمیان ایسے خطے موجود ہیں جہاں عورتوں کو ان کے حقوق میسر نہیں اور نہ ہی انہیں زندگی گزارنے کے بنیادی ثمرات دیئے جاتے ہیں۔ ہانگ کانگ یونیورسٹی کی پروفیسر میں فوزیہ لون اور لندن سکول آف اکنامک پولیٹیکل کے پروفیسر فرانس ہیڈن سن لون یونیورسٹی کی پروفیسر وہرے درولون نے متنازعہ علاقوں میں خواتین کے تشدد پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ جن ممالک میں آزادی اور جنگ جاری ہے ان ممالک میں خواتین کے ساتھ جانوروں کا سلوک کیا جاتا ہے۔ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنا کر اپنی حوس پوری کی جاتی ہے اور حوس پوری کر کے انہیں پھینک دیا جاتا ہے جو ناقابل برداشت ہے۔مس فوزیہ لون نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم اور وہاں خواتین پر ہونے والے تشدد پر حاضرین کو آگاہ کیا ہال میں موجود سینکڑوں شرکاءبالخصوص یو این سفرا مبصر ممبرز آف پارلیمنٹ نے بھارت کے مظالم پر شیم شیم کہا۔ مس فوزیہ لون نے شرکاءکو مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے اور وہاں ہونے والی بداعمالیاں دیکھنے کا دورہ کرنے کا کہا اور اپیل کی کہ وہ ظلم سہنے والی خواتین کی مدد کیلئے اٹھ کھڑے ہوں اور ان کے حقوق کے لئے آواز بلند کریں۔ ڈائریکٹر یونائیٹڈ نیشن مس پسٹرا پروفیسر ڈاکٹر ایما بران، انٹرنیشنل ایسوسی ایشن کی صدر پروفیسر مشلین ڈاکٹر مظہر عثمان پروفیسر ملیسا ران کورٹ نے کہا کہ بین الاقوامی قوانین کی روح سے اجتماعی زیادتیاں انسانیت کے خلاف جرائم کے دائرے میں آتا ہے دنیا کو خواتین کے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں ایسے واقعات بھی موجود ہیں جہاں عورتیں بھی مردوں پر ظلم کرتی ہیں لیکن ان کی تعداد انتہائی کم ہے لیکن اس پر بھی ہمیں سوچنا اور لائحہ عمل تیار کرنا ہے تاکہ کسی پر بھی ظلم نہ ہو۔ بیگم شمیم تال یو این اور او آئی سی کی سپیشل ممبر برائے خواتین ونگ نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اسپیشل رپورٹر کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنا چاہئے۔ انٹرنیشنل تنظیم Sida کو چاہئے کہ وہ خواتین کی مدد کرے اور بین الاقوامی عدالت خواتین پر ہونے والے مظالم اور زیادتیوں کا جائزہ لے۔ انہوں نے تمام خواتین اور این جی اوز سے کہا کہ آپ نے بے آواز کی آواز بننا ہے اور ناامیدی کیلئے امید جگانی ہے تاکہ ایک پرامن معاشرہ جنم لے سکے۔ کشمیر سنٹر برسلز کے چیف ایگزیکٹو برسٹر عبدالمجید ترمیو نے تمام این جی اوز یو این مبصرین شعرا کا شکریہ ادا کیا کہ وہ دن دور نہیں جب خواتین اپنا سر فخر سے اٹھا کر زندگی گزاریں گی آج جو تجاویز پیش کی گئی ہیں اسے یو این اور بین الاقوامی فورم میں پیش کیا جائے گا کیونکہ متنازعہ علاقوں اور ممالک بالخصوص مقبوضہ کشمیر میں ظلم کا ایک بازار گرم ہے جہاں عورتوں کے ساتھ ناانصافیاں جاری ہیں۔ جہاں ان کی آواز سننے کو کوئی تیار نہیں اور نہ ہی انہیں زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی مثال سب کے سامنے ہے جہاں عورتوں کی جانوروں سے بدتر زندگی ہے۔ بھارتی آرمی کشمیری خواتین کے ساتھ ظلم کرتے ہیں انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں اور پھر قتل کر کے پھینک دیتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر واحد خطہ ہے جہاں قانون نام کی کوئی چیز نہیں اور نہ ہی قانون پر عمل کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں اجتماعی اور گمنام قبریں موجود ہیں۔ بھارت ظلم پر ظلم کر رہا ہے۔ افضل گوار کی پھانسی انسانیت کے خلاف ظلم اور ماورائے عدالت ہے جس میں قانون کی دھجیاں بکھیریں گئیں جس سے بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی کی گئی لیکن افسوس کہ بھارت کسی کی بات سننے کو تیار نہیں۔ ہم سب کو مل کر یک زبان ہو کر بھارت کا محاسبہ کرنا ہو گا اور بین الاقوامی سطح پر بھارت کی بدمعاشی سے پردہ چاک کرنا ہو گا۔ ہیڈ آف بوش یونیورسٹی پروفیسر ملیسا ران کورٹ نے کہا کہ انہوں نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کر کے دیکھا کہ جہاں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں جہاں انسانیت رو رہی ہے اور انصاف کی طلب گار ہے جس ماحول میں وہاں عوام اور خواتین زندگی گزار رہے ہیں وہ ناقابل یقین ہے۔