اگر اندھا دوسرے کی رہبری کرے گا تو دونوں گڑھے مےں گرےں گے۔ ” حضرت عےسٰی“۔کافی دن سے کھُسر پُھسر ہو رہی تھی۔ کچھ کچھ اندازہ تو ہو رہا تھا مگر دھےان دےنے کا قطعاً موڈ نہےں تھا ےا پھر اےمانداری سے سچ کہوں تو نےت ہی نہ تھی ۔ جھگڑے کی بنےاد کو شروع مےں ہی جڑ سے اُکھاڑنے کی۔۔ سو آج دنوں سے جاری کھسر پھسر نے شدےد شوروغل کی صورت اپنائی۔شور زےادہ بڑھا تو مےں نے نوٹس لے لےا، دونوں بچوں کو بُلاےا۔ طوےل مےٹنگ کی۔ ملازمےن کے کان کھڑے ہو گئے۔ ملاقاتی کمرے کے قرب و جوار مےں چکر لگاتے لگاتے ” ہانپے ہو گئے“ مگر کمرے سے گھنٹوں تک کوئی خبر ، کوئی چےز برآمد نہ ہوئی تو ناچار ماےوس ہو کر اےک طرف بےٹھ رہے ۔ مےں نے اےک بچے کو کہا چلومےرے بےڈ کی سائےڈ ٹےبل کے سب سے اوپر والے دراز مےں سے فلاں کاغذ نکال کر لاﺅ اور ہاں ”قلم“ بھی ساتھ لےتے آنا۔۔ بچے کی آواز آئی۔۔”ماما جی“ وہاں تو کاغذوں کا ڈھےر لگا ہوا ہے۔ کونسا کاغذ لاﺅں ۔۔سب اےک ہی جےسے ہےں۔۔ جواب دےا بس اےک لے آﺅ ”قلم“ کےوں نہےں لائے۔”ماما“ ”قلم“ کی کےا ضرورت ہے۔۔ سب کاغذ ہی لکھے ہوئے پڑے ہےں اب لکھی ہوئی تحرےر کے اُوپر کےا الفاظ لکھےں گی۔زےادہ مت بولو۔۔ مےں نے جھڑک دےا ،جاﺅ قلم لا کر دو۔ آج کی تارےخ بھی تو ڈالنی ہے کےو نکہ واقعہ آج ہی کی تارےخ کا جو ہے۔ مےں نے لکھی ہو ئی تحرےر پر تارےخ ڈال کر دستخط کےے اور بچوں کے حوالے کر کے اُنکے ہاتھوں مےں 50 - 50 روپے کے دو نوٹ تھما دئے۔ بچے کافی دےر تک حےرت سے کبھی مجھے اور کبھی کاغذ + کرنسی نوٹ کو دےکھتے رہے اور اسی پرےشانی نما حےرانی کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئے۔۔اس کاروائی کے بعد دو دن سکون سے گزر گئے کہ تےسرے دن بچوں کی تو تکارسنی مگر نظر انداز کر کے کانوں تک مفلر لپےٹ لےا کہ اسی اثنا مےں شور گڑگڑاہٹ مےں تبدےل ہوا تو مےں نے فوری نوٹس لےا۔ دےکھا تو ”نےا ٹی وی“ زمےن پر پڑا کسی خود کش دھماکہ کی مکمل عکاسی کرتا نظر آےا۔ اب اےسے واقعات کے تدارک کے لےے مےںمکمل طور پر تےار تھی۔ فوراً اُسی طرح اپنی” سائےڈ ٹےبل “ کے پہلے دراز سے کاغذ منگواےا۔ شدےد ترےن الفاظی مذمت کے علاوہ لکھی ہوئی تحرےر پر مذکورہ واقعہ والے دن کی تارےخ ڈال کر دستخط کےے اور واپس اپنے کمرے مےں آکر پُرسکون نےند کی دنےا مےں کم ہو گئی۔نوٹس لے لےا ۔مذمت کردی مگر جو نقصان پہنچ چکا تھا وہ کےسے برابر ہو سکتا تھا اس لئے قصداً مزاج کی رواےتی سستی غالب رہی۔سستی ےا غفلت کچھ بھی ہو۔۔ مزاج مےں ان دونوں کے ساتھ زندگی بڑے مزے سے گزرتی ہے۔ کسی دُکھن ےا نقصان کا اندازہ ہی نہےں ہو پاتا۔مگر کےا ان عادات کے ساتھ منفی واقعات کے تسلسل کو توڑا جا سکتا ہے۔ ےہ ابھی تک معلوم نہےں تھا۔کچھ دن بعد گھر کے عقب سے کچھ آوازےں بلند ہوتی سنائی دےں۔دھےان دےا تو معلوم ہوا کہ آوازےں تو اپنے ہی گھر کے ”سرونٹ کوارٹر“ سے آرہی ہےں۔ تو تکار بڑھی تو برتنوں کے ٹوٹنے سے ےوں لگا کہ ”ڈرون اٹےک“ ہو گےا ہے۔ شور و شغب ۔۔ تھوڑ پھوڑ نے باقاعدہ دست بدست لڑائی کی شکل اختےار کر لی تو ” بےٹا“ بھاگتا ہواگےا اور واپس آکر بتاےا کہ ” سرونٹ کوارٹر“ باقاعدہ ”محاذ جنگ“ مےں بدل چکا ہے۔ کمرے کا سب سامان ۔برتن ٹوٹ چکے ہےں۔ کمرے کے باہر رکھے گملے بھی ملازمےن کی لڑائی کا باقاعدہ اےندھن بن چکے ہےں۔۔ کہنے لگا مےں نے تو آپ کو لڑائی کی پےشگی اطلاع دے دی تھی۔ اس کو روک نہ سکنا آپ کی ناکامی ہے۔ مےں نے اےک نوکر کو بلا کر حکم دےا کہ چلو راستے سے جھاڑ جھنکار ہٹاﺅ۔۔جھاڑو لگا کر پانی سے گزر گاہ صاف کرو۔ مےں نے ”سرونٹ کوارٹر“ کا وزٹ کرنا ہے۔ ”کوارٹر“ مےں منظر انتہائی دل شکن تھا۔ مالی نقصانات کے علاوہ فرش پر بکھرے خون کے نشانات بھی مےرے دل پر دستک نہ دے سکے۔۔سر سری جائزہ لےا۔ اپنے بےٹے کو کہا کہ جاﺅ مےرے دراز سے کاغذ اور قلم نکال کر لاﺅ۔۔ اتنے الفاظ منہ سے ادا ہوئے تھے کہ ” بےٹا“ گوےا پھٹ پڑا کہ ےہ کےا تماشہ ہے ۔آپ کا طرےقہ کارانتہائی بھونڈا۔ مسخرہ پن لےے ہوئے ہے۔۔ اےک ہی جےسی تحرےر کے ڈھےروں کاغذ ۔وہ بھی آسان رسائی مےں کہ فوراً سے پہلے نکال کر استعمال کر لو۔سوائے نئی تارےخ ڈالنے کے کوئی فرق نہےں۔باہم متصادم فرےقےن کے مابےن ےہ اےک اےسا بنےادی سوال ہے کہ جو دونوں کے مابےن آئندہ کے حقےقی تعلقات کا تعےن کرے گا اس لئے ”ماما جی“ پلیز لڑائی کی بنےاد کو ختم کرنے کی کوشش کرےں۔ سےاستدانوں کی طرح ”ڈنگ نہ ٹپائےں“۔۔ مگر مےرا موڈ نہےں تھا، اس لئے مےں نے دونوں ملازمےن کے ہاتھوں مےں کچھ روپے تھمائے اور واپسی کی راہ لی۔ بےٹے کا احتجاج بڑھا تو مےں نے کہا کہ تم کو مسئلہ کےا ہے مےں کچھ اےسا غلط نہےں کر رہی مگر اس کا اےک ہی موقف تھا کہ مےں مسائل کی تہہ مےںاُتر کر تنازعات کی بنےاد کی بیخ کنی کرنے کی بجائے ”چونا“ پھےرنے کی فضول سی لا حاصل مشق کرتی ہوں۔ جبکہ مےرا موقف زےادہ وزنی تھا کہ مےں جو کچھ بھی کرتی ہوں۔۔ پےش آمدہ حالات کے تقاضے پورے کرتی ہوں۔ مےرا ےہ عمل ہر لحاظ سے ہمارے مجموعی قومی مزاج کے عےن مطابق ہے کےونکہ ہم اتنے آرام طلب ،بے حس ہو چکے ہےں کہ اپنے حالات مےں زمانے کی تےز ترےن رفتار کا ساتھ دےنے کی سکت ہی نہےں رکھتے۔ نہ ثبات و تغےر کی فکر ہے۔ نہ نظام کے تلپٹ ہونے کی۔ چاہے منزل کٹھن ہو جائے راستہ کانٹوں سے بھر جائے۔ ہم کےوں کسی کام کو کرنے کی ذمہ داری خود پر لےں ہےں۔۔ خوامخواہ سر درد کےوں پالےں۔۔فرائض سے اغماض اور حقوق پر سےنہ زوری بذرےعہ آتش و آہن ےہی اصل داستان ہے۔ ہماری بدنصےبی کا نوحہ جو کسی اور نے نہےں مرتب کےا بلکہ ہم نے اپنی”بدقسمتی کی کتاب “ کو خود اپنے ہی خون سے اپنے ہی ہاتھوں سے لکھا ہے۔۔ ہم نے ” جام ہوش افگن “ چکھ لےا ہے۔۔ہم کےوں تساہل پسندی کو چھوڑےں۔ کسی جھگڑے۔۔فساد کو جڑ سے اکھاڑنے کی ذمہ داری اٹھائےں۔۔ کےونکہ ”ذمہ داری “ بھی اےک مکمل۔ بھرپور توجہ کی حامل۔ مگر ساتھ مےں نہاےت ہی حساس عہدہ ہے۔ ذمہ داری چاہے گھر کی ہو ۔ ادارے کی ےا پھر کسی ملک کی ۔ ذمہ دار شخص کی بصےرت۔شعور اور ادراک کا امتحان ہوتا ہے۔ اس لئے ہم کےوں دوسروں کو راستہ دکھائےں۔ مےں وہ کام کےوں کروں جو ہماری ”قےادت“ نہےں کرتی۔ مےں وہی کام کےوں نہ کروں جو ہماری ”قومی قےادت“ کرتی ہے۔ نوٹس ۔مذمتی بےان کا اجراءاور امدادی چےک کی تقسےم ۔ ”اگر اندھا دوسرے کی رہبری کرے گا تو دونوں گڑھے مےں گرےنگے۔ (حضرت عےسٰی)