الیکشن کی آمد آمد ہے ۔ ہماری طرح عام ووٹر بھی دعاگو ہے کہ نئے الےکشن ہمارے وطنِ عزےز اور اس مےں بسنے والے عام لوگوں کے لےے خوشی اور خوشحالی کے نئے دور کاآغاز ثابت ہوں ۔ قارئےن جب عام ووٹر سے ےہ سوال پوچھاجاتا ہے کہ وہ آنے والے الےکشن مےں کس پارٹی کو ووٹ دے گا تو اس کا جواب ملتا ہے۔ ”ن لےگ کو“اگرآپ اس کے سامنے دوسرا سوال رکھےں ”ن لےگ ہی کےوں؟ کسی اور پارٹی کو کےوں نہےں؟ کےا تحرےکِ انصاف اور پی پی آپ کے ووٹ کے حق دار نہےں؟ “توعام ووٹر آپ سے کہے گا”صاحب! دہشت گردی کے حملوں سے تار تار بکھرا وجود اور رےاست گردی کی چکی مےں دن رات پسنے والا عام آدمی سےاست کی بارےکےوں سے نہ تو واقف ہوتا ہے اور نہ ہی اس مےں دلچسپی رکھتا ہے۔ اس لےے عام آدمی اس پارٹی کو ووٹ دےتا ہے جس کے کام نظر آتے ہوں۔ آج جب ہمارا وطن اےک اندھےر نگری کا نقشہ پےش کر رہا ہے ۔ اےسے مےں صرف ن لےگ کے کام اُمےد کے چمکتے ستاروں کی طرح عام لوگوں کو دکھائی بھی دے رہے ہےں اور آنے والی روشن صبح کی منزل کی نشاندہی بھی کررہے ہےں۔ ن لےگ نے نگران وزےراعظم کے لےے تےن نام فائنل کر لےے ہےں ۔ ناصر اسلم، شاکر اللہ جان اور رسول بخش پلےجو۔ جبکہ جماعتِ اسلام کی طرف سے پلےجو کے نام پر اعتراض بھی سامنے آگےا ہے۔ اس سلسلے مےں سب سے اچھی اور خوش آئند بات ےہ ہے کہ ن لےگ ان ناموں کی تحرےکِ انصاف نے بھی تائید کردی ہے ۔ اب پیپلز پارٹی کے بھی تین نام سامنے آگئے ہیں۔اس دوران مسلم لےگ (ن) کا انتخابی منشور بھی سامنے آگےا ہے جو عوام کی اُمنگوں اور خوابوں کے عےن مطابق ہے۔الےکشن کی آمد آمد ہے اور تمام اپوزےشن پارٹےاں اپنی اپنی الےکشن مہم مےں مصروفِ عمل ہےں اور نگران سےٹ اپ پر غور وفکر اور مشاورت جاری ہے۔ اس دوران حکمران جماعت جس کو آئندہ الےکشن کی کوئی خاص تےاری کی ضرورت ہی نہےں وہ جو کہتے ہےں کہ ہمارا تو کام بولتا ہے۔ ےعنی” آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے“ ۔ گوےا کہ حکمران اتحاد کے شاندار کارناموں کی بدولت عوام بڑے پُر جوش انداز مےں پی پی کے نام پر بےلٹ باکس بھرتے جائےں گے اس لےے بھی انھےں کسی قسم کی انتخابی مہم چلانے کی ضرورت ہی نہےں پڑے گی۔ موجودہ عوامی حکومت نے عوام کے دکھ درد کو کس طرح اپنا اوڑھنا بچھونا بناےا ہوا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگاےا جا سکتا ہے کہ اب جبکہ موجودہ حکومت کے دن پورے ہونے جا رہے ہےں عوامی حکومت کا قرض لےنے کا رجحان دن بدن بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ حکومت نے سٹےٹ بےنک سے اوسطاََ صرف 7 ارب روپے ےومےہ کے حساب سے قرض لےنا شروع کر دےا ہے۔ مرکزی بےنک کے اعداد و شمار کے مطابق حکومت نے صرف 29 روز مےں سٹےٹ بےنک سے 208 ارب روپے کا قرضہ لےا ہے۔ تےن دوستوں نے رات کو مل کر کھےر بنائی ۔ ان مےں سے دو مولوی حضرات تھے اور اےک جٹ تھا۔ انھوں نے فےصلہ کےا کہ جو بھی صبح اُٹھ کر سب سے اچھا خواب سنائے گا اسے کھےر مےں زےادہ حصہ ملے گا۔ مولوی حضرات تو سو گئے مگر جٹ جاگتا رہا۔ رات کو جب اسے بھوک لگی تو وہ ساری کھےر کھا گےا۔ صبح اُٹھ کر دوستوں نے اپنا پنا خواب سناےا ۔ اےک نے کہا”مےں جب سوےا تو خواب مےں اےک پری مجھے اپنے ساتھ پرستان لے گئی اور ےوں مےں تو ساری رات پرستان کی سےر کرتا رہا۔ دوسرا بولا مےں نے خواب مےں جنت کی دودھ اور شہد کی نہروں کا نظارہ کےا۔“جب انھوں نے جٹ سے پوچھا تو وہ بولا مجھے تو رات نےند ہی نہےں آئی۔ جب آدھی رات ہوئی تو عزرائےل فرشتہ آگےا اور اس نے ہاتھ مےں موٹا سا ڈنڈا پکڑا ہوا تھا۔ فرشتے نے کہا ساری کھےر ختم کرو ورنہ ڈنڈا تم پر برسے گا۔ مولوےوں نے کہا ”ےار جب تم کھےر کھا رہے تھے تو ہمےں بھی جگا لےتے“۔ جٹ بولا”تمہےں کےسے جگاتا اےک کی چارپائی دےکھی تو وہ پرستان کی سےر کو گےا ہوا تھااور دوسرا جنت کی نہرےں دےکھ رہا تھا۔ اس لےے مجبوراََ مجھے اکےلے ہی ساری کھےر ختم کرنی پڑی“۔حکومت کی رُخصتی کے قرےب ماسوائے ق لےگ کے سارے اتحادی ساتھ چھوڑ گئے ہےں(بظاہر) اس لےے اب حکومت کو اکےلے ہی سٹےٹ بےنک سے قرض لے کر گزارہ کرنا پڑ رہا ہے۔ وےسے بھی قرض لےنے کے اس رحجان کو ہمےں بُری نظروں سے نہےں دےکھنا چاہےے۔ آخر خوش گمانی بھی کوئی چےز ہوتی ہے ۔ کےونکہ سندھ کے سےلاب زدگان کی بحالی کے واسطے حکومت کو کافی قےمتی سرماےہ خرچ کرنا پڑا ہے۔ اور رہی سہی کثرآئے روز ہونے والی دہشت گردی نے پوری کردی ۔اب بم دھماکوں مےں مرنے والوں کے وارثوں کو بھی خطےر رقم دےنی پڑتی ہے۔ اب جبکہ غرےب عوام کی خدمت کرتے کرتے حکومتِ وقت نے ملکی خزانہ بالکل خالی کر دےا ہے بلکہ حکومتی ارکان نے اپنی جےب سے بھی اس کارِ خےر مےں اتنا حصہ ڈالا ہے کہ ان کی جےبوں کے ساتھ ساتھ ان کے ذاتی اکاﺅنٹ بھی خالی ہو گئے ہےں اےسی صورت حال مےںبے چاری حکومت قرض نہ لے تو اور کےا کرے؟ واقعہ ےہ ہے کہ تاجرحضرات تو اپنی مٹی کو بھی سونے کے بھاﺅ بےچنے کا فن جانتے ہےں لےکن حکومت اپنے سونے سے بھی قےمتی کارناموں کے دام عوام سے وصول کرتی دکھائی نہےں دےتی۔ اگر کہےں عوام نے اپنی نادانی مےں اپوزےشن کو ووٹ دے ڈالے تو آنے والے پانچ ےا دس سال کے لےے حکومت کو اپنے ارکان کی دال روٹی کی فکر تو کرنی چاہےے۔ اس لےے بھی قرض لےنا اےک جائز عمل قرار دےا جا سکتا ہے۔ آپ بھی جانتے ہےں کہ دال روٹی سے چہروں پر وہ رونق نہےں آتی جو مالِ مفت دلِ بے رحم سے آجاےا کرتی ہے۔ حکومتی ارکان کے چہروں کی بے رونقی کے لےے کسی نے کےا خواب کہا ہے ےہ جو چہرے سے تمہےں لگتے ہےں بےمار سے ہم خوب روئے ہےں لپٹ کر درودےوار سے ہم اور ےہ جو درودےوار والی بات ہے تو ےہ بھی اپنے گھر کے نہےں ہوں گے بلکہ دبئی ےا لندن کے ہی ہوں گے۔ الےکشن کی آمد آمد ہے اےسے مےں 6 مارچ کو ہمارے محترم آرمی چےف اشفاق کےانی نے ہےڈکوارٹرز کراچی کا دورہ کےا ہے۔ہم اشفاق کےا نی صاحب سے کہنا چاہےں گے کہ ہم جب بھی جلتے ہوئے کراچی کو دےکھتے ہےں تو ہمےں بڑی دےر تک سوچنا پڑتا ہے اور پھر کہےں جا کر ےاد آتا ہے کہ برسوں پہلے نصےراللہ بابر نے بھی کراچی کے امن کے بارے سوچا تھا۔ لےکن وہ بے چارے رےٹائر آدمی تھے اس لےے وہ مچھلےاں ہی پکڑنے مےں مصروف رہے۔ بعد مےں وہ مچھلےاںبھی ان کے بوڑھے ہاتھوں سے پھسل گئیں اور آج کراچی کا امن آپ کے سامنے ہے۔ کےانی صاحب آپ خدا کے فضل سے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالنے کی پوزےشن مےں ہےں ۔ تالاب کی گند ی مچھلےوں کو تلف کرنے کا طرےقہ ہے کہ آپ ان کی سپلائی لائن بند کر دےں ےعنی افغان بارڈر سےل کر دےا جائے تو جب اسلحے اور منشےات کی سپلائی نہےں آئیگی تو ساری گندگی مچھلےاں خود ہی آپ اپنی موت مر جائےں گی۔ ہماری دعا آپ کے ساتھ ہے خدا آپ کو اس کارِ خےر مےں ضرور کامےاب کرے گا۔ الےکشن کی آمد آمد ہے ۔اس نازک وقت پر جب ساراپاکستان کراچی سے کوئٹہ تک دہشت گردی کی آگ مےں جل رہاہے اےسے مےں شرمےلانے اپنا گھر بسانے کا فےصلہ کرلےا۔ ہمےں افسوس ہے کہ ہم شرمےلا کی خوشی مےں شرکت نہےں کرسکتے۔ کےونکہ خوشی کی نسبت دکھ زےادہ بڑی حقےقت ہوتا ہے۔ ہمےں شرمےلا کی منگنی کا دکھ نہےں ےہاں دکھ سے ہماری مراد سانحہ عباس ٹاﺅن ہے۔ اور ےہ دکھ صرف ہمارا نہےں پورے کراچی بلکہ سارے پاکستان کا دکھ ہے۔ ہمارے ہاں پنجاب مےں شوقےن حضرات اپنی منگنی اور شادی کی تقرےب مےں ہوائی فائرنگ سے دل بہلالےتے ہےں کبھی کبھار اس فائرنگ کی زد مےںآکر کوئی اےک آدھ بندہ مارا بھی جاتا ہے اس سے زےادہ جانی نقصان کبھی نہےں ہوتا۔ ےاپھر غرےب مسکےن آدمی اپنی شادی کی خوشی مےں کھانسی کا شرےت وغےرہ پی لےں تو اس صورت مےں بھی ہلا کتوں کی تعداد پانچ ےا چھ سے زےادہ نہےں ہوتی ۔ شرمےلا اگر اپنی منگنی کے لےے کسی ماہر جوتشی سے اپنی کنڈلی نکلوا لےتیںتو وہ ضرور آگاہ کر دےتا کہ اے لڑکی تم اپنی ملک مےں منگنی کی تقرےب نہ کرنا ورنہ بہت سے معصوم لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بےٹھےں گے۔ تم اپنے منگنی کے لےے دبئی ےا لندن وغےرہ کا انتخاب کرو تو اس شہرِ قائد کی عوام کے لےے بہت بہتر ہو گا۔ لےکن افسوس اےسا نہ ہوسکا اور ہمےں سانحہ عباس ٹاﺅن دےکھنا پڑا۔ اگر کسی گھر مےں عےد سے کچھ روز پہلے مرگ ہو جائے تو اس گھر کے مکےنوں کے لےے وہ عےد ہی نہےں ہوتی۔ قارئےن ذرا سوچئے سانحہ عباس ٹاﺅن مےں جن لوگوں کے گھر اُجڑگئے ہےں ان کے لےے آئندہ الےکشن اور شرمےلا کی منگنی کتنی ےادگار ہوگی؟
الیکشن کی آمداور شرمیلا کی منگنی
Mar 15, 2013