تمام تر دباﺅ اور دھمکیوں کے باوجود صدر آصف علی زرداری اور ایرانی صدر احمدی نژاد نے گیارہ مارچ کو پاکستان ایران گیس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ دیا ۔ صدر زرداری اس دلیرانہ اور ملکی ترقی و خوشحالی کے قابل ذکر اقدام پر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے جاتے جاتے پاکستانی قوم کو توانائی کا ایک انمول تحفہ پیش کیا ہے۔ اگرچہ پیپلزپارٹی کی پانچ سالہ حکومتی کارکردگی بہت مایوس کن رہی ہے لیکن الیکشن سے قبل پاک ایران گیس منصوبے کے عظیم کارنامے نے پی پی پی حکومت کے بہت سے ”دھونے“دھو دیئے ہیں۔ سب سے اہم بات اس منصوبے میں امریکہ کی طرف سے ملنے والی پابندیوں کی دھمکیاں ہیں۔ جنہیں نظر انداز کرنا خاصا حوصلے اور جرا¿ت کا کام تھا مگر پاکستانی حکومت نے امریکی دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کے اس میگا پراجیکٹ کا افتتاح کر کے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی اور اپنے مفادات کے اعتبار سے ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے جسے کوئی ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا۔ یہ منصوبہ ساڑھے سات ارب ڈالر کی لاکت سے دو سال کے قلیل عرصہ میں مکمل ہو گا اور پاکستان کو 75 کروڑ مکعب فٹ گیس یومیہ حاصل ہو گی۔ دو ہزار میگاواٹ بجلی بھی اس سسٹم کا حصہ ہے جس سے پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کا عذاب بہت حد تک کم ہو جائے گا۔ پاکستان کی معیشت اور تجارت توانائی کے بحران سے بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔ فیکٹریاں اور ملیں آہستہ آہستہ بند ہوتی جا رہی ہیں۔ زراعت روز بروز کم سے کم تر درجے تک پہنچ رہی ہے۔ کاروبار ٹھپ ہو رہے ہیں۔ دفاتر، سکولز، بنک حتیٰ کہ ہر شعبہ زندگی توانائی کے بحران اور بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ کے باعث بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اس منصوبے کی بدولت ہماری بہت سی ضروریات نہ صرف پوری ہو سکیں گی بلکہ فیکٹریاں اور ملیں دوبارہ چالو ہو جائیں گی اور کاروبار حیات اپنی ڈگر پر تیز رفتاری سے رواں دواں ہو سکے گا۔ جس سے بیروز گاری، مہنگائی حتیٰ کہ دہشت گردی تک پر قابو پایا جا سکے گا۔پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان نے نائن الیون کے بعد امریکہ کے اتحادی ہونے کی پاداش میں جتنا نقصان اٹھایا ہے اس کا ازالہ امریکہ نے ابھی تک نہیں کیا۔ جو تھوڑی بہت امداد امریکہ پاکستان کو دیتا ہے وہ بھی عوامی اور قومی منصوبوں پر خرچ ہوتی نظر نہیں آتی اور نہ وہ اس قدر قابل ذکر ہے کہ ہم اب بھی امریکہ کا منہ دیکھتے رہیں۔ کیا امریکہ نے اپنے اتحادی یعنی پاکستان کو نظر انداز کر کے بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدہ نہیں کیا؟ کیا یہی جمہوریت پسندی ہے؟ کیا یہی عدل وانصاف ہے؟ کہ جس پاکستان نے اپنے مفادات بالائے طاق رکھ کر امریکہ کو فوجی اڈے فراہم کئے،اپنے ہی لوگوں پر ڈرون حملے کروائے اور اپنے بے گناہ بچے امریکہ کی اندھی جنگ کی بھینٹ چڑھا دیئے اسے نظر انداز کر کے امریکہ نے بھارت کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھائیں۔ یہ تو وہی حال ہوا (بقول اقبالؒ) رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پربرق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پرجہاں تک امریکی پابندیوں کا تعلق ہے تو ان پابندیوں کے نہ لگنے سے ہم کون سے خوشحال اور آسودہ ہیں جو امریکی پابندیوں کے بعد ہمیں کوئی قابل ذکر نقصان اٹھانا پڑے گا۔ لہذا امریکی پابندیوں سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ الیکشن کے بعد آنے والی جو بھی حکومت ہو، اس کا فرض ہے کہ وہ قومی ترقی و خوشحالی کے اس عظیم منصوبے کو بروقت پایہ تکمیل تک پہنچائے اور کسی قسم کے غیر ملکی دباﺅ میں آ کر یا کسی بھی قسم کی سیاسی مخالفت کی بنا پر اس منصوبے کی تکمیل کی راہ میں روڑے اٹکانے سے باز رہے کیونکہ ماضی میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ قومی ترقی کے بڑے بڑے منصوبے محض ذاتی اور سیاسی اختلافات کی بھینٹ چڑھ گئے اور ہم جہاں تھے وہیں رہے۔ پالیسیوں کے تسلسل سے ہی قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔ دوسری طرف لاہور میں سانحہ بادامی باغ نے ہر محب وطن ، اسلام دوست، امن پسند اور انسانیت نواز شخص کا دل زخم زخم کر دیا ہے.... پاکستان میں آج تک کسی اقلیت کے ساتھ عوامی سطح پر اس قدر ہولناک اور دلخراش رویہ اختیار نہیں کیا گیا۔ یہ جہالت کی انتہا ہے کہ ایک شخص کے جرم کی پاداش میں پوری بستی کو نذر آتش کر دیا گیا۔ یہ تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا اور مالی نقصان تو پورا کیا جا سکتا ہے۔ یہاں پولیس کی لاپروائی اور نااہلی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جوزف کالونی آگ کے شعلوں میں گھری ہوئی تھی اور پولیس خاموش تماشائی بنی دیکھ رہی تھی۔یہ تو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف ہی تھے جو فوراً موقع پر پہنچے اور متاثرین کی مالی امداد کے ساتھ ان کے تباہ شدہ مکانوں کی تعمیر و مرمت کا کام شروع کروایا اور بہت سے شرپسند عناصر کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ پنجاب حکومت کے دامن پر لگنے والا یہ دھبہ اسی وقت صاف ہو گا جب اصل مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا کر نشان عبرت بنایا جائے گا۔ پاکستان کی تو بنیاد ہی اسلام پر استوار ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے رخ روشن میں بدنما داغ ہے۔ اقلیتوں کو بھی یہاں وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کو ہیں۔ اس سانحے سے پوری دنیا میں پاکستان کا امیج بہت خراب ہوا ہے لیکن امید ہے کہ پنجاب حکومت اس کا ازالہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور آئندہ اس قسم کا دلخراش واقعہ رونما نہیں ہو گا۔ آج پورے ملک میں ”یوم رواداری“ منایا جا رہا ہے۔ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں عیسائی برادری سے اظہار یکجہتی کر رہی ہیں۔ ہمارے عیسائی ہم وطنوں کو بھی تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور چند سماج دشمن عناصر کی مجرمانہ کارروائی پر ملک و قوم کے مفاد سے ہٹ کر کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہئے۔ ہماری دعا ہے (بقول ندیم) ....خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کےلئےحیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو