حکومت طالبان مذاکرات کا نیا مرحلہ اور کشیدگی کی نئی لہر

کوئٹہ‘ پشاور دھماکوں میں پولیس اہلکاروں سمیت 17 افراد جاں بحق 25 زخمی

پشاور میں تھانہ سربند کے قریب خودکش دھماکے میں 7 افراد جاں بحق‘ 25 زخمی ہو گئے۔ جاں بحق اور زخمی ہونیوالوں میں پولیس اہلکار‘ خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ دھماکے میں پولیس موبائل کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ دریں اثناءکوئٹہ شہر کے مرکزی علاقے پرنس روڈ میں بھی ایف سی کی گاڑی کو بم دھماکہ کا نشانہ بنایا گیا جس میں 10 افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہو گئے۔
حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کے عمل میں جب بھی پیشرفت ہوتی ہے‘ کوئی نہ کوئی سانحہ رونما ہو جاتا ہے۔ حکومتی اور طالبان کمیٹی کے درمیان مذاکرات ابتدائی مرحلے میں تھے کہ طالبان کے زیر حراست 23 ایف سی اہلکاروں کے گلے کاٹ دیئے گئے۔ اسکی ذمہ داری طالبان کے ایک گروپ نے قبول کرلی جس پر مذاکرات کی راہ ایک بار پھر کھوٹی ہوتی نظر آئی۔ وزیراعظم نوازشریف اور انکے قریبی حکومتی ساتھیوں کے امن کو ایک اور موقع دینے کا ”عزم“ اس اندوہناک واقعہ سے متزلزل نہ ہوا۔ حکومتی سطح پر مذاکرات میں پیشرفت کیلئے طالبان سے غیرمشروط سیزفائر کا مطالبہ کیا گیا۔ طالبان نے اس شرط کو قبول کرتے ہوئے جنگ بندی کا باقاعدہ اعلان کردیا۔ جس روز جنگ بندی کا اعلان ہوا‘ اسی روز 2 پولیو ورکرز ٹیم کے10 محافظوں کو قتل کر دیا گیا اور اگلے روز اسلام آباد کچہری کا المناک واقعہ پیش آگیا۔ طالبان نے واقعات سے لاتعلقی ظاہر کی تاہم احرارالہند جیسے گروپوں نے اسکی ذمہ داری قبول کی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کے بقول احرارالہند کی کڑیاں پنجابی طالبان سے ملتی ہیں۔ اسلام آباد کچہری واقعہ جس میں ایک جج سمیت 12 افراد جاں بحق ہوئے تھے‘ حکومت کی جانب سے اس پر شدید ردعمل ہوا۔ عمران خان بھی ناراض نظر آئے۔ پیپلزپارٹی‘ متحدہ قومی موومنٹ اور اے این پی کا حکومت پر اپریشن کیلئے دباﺅ بڑھ گیا تاہم حکومت نے حسب سابق ”امن کو ایک موقع“ دینے کا فیصلہ برقرار رکھا۔ طالبان کے مطالبے پر حکومتی کمیٹی تحلیل کرکے نئی تشکیل دے دی‘ بظاہر طالبان مذاکرات کیلئے سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ گزشتہ روز انکی کمیٹی نے شمالی وزیرستان جا کر خفیہ مقام پر طالبان قیادت سے ملاقات کی‘ جس میں انہوں نے کمیٹی کو اپنے مطالبات سے آگاہ کیا جو ایک دو روز میں حکومتی کمیٹی کے سامنے رکھے جائینگے۔ شاہداللہ شاہد کا کہنا ہے کہ طالبان قیادت قوم کو مایوس نہیں کریگی۔طالبان دہشت گردی کی کارروائیوں سے لاتعلقی کا اظہار تو کرتے ہیں‘ کارروائیاں کرنیوالوں سے اپنے وعدے کے مطابق بازپرس نہیں کرتے۔ طالبان کی طرف سے سینکڑوں واقعات کی ذمہ داری قبول کی گئی‘ ان میں مرنے والے خواتین اور بچے بھی شامل ہیں‘ کیا وہ قوم کا حصہ نہیں ہیں؟ جس کو اب مایوس نہ کرنے کا عزم ظاہر کیا جا رہا ہے
 وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان نے 3 مارچ کو اسلام آباد کچہری پر دہشت گردی کے بعد کہا تھا کہ یہ کارروائی اگر طالبان نے نہیں کی ‘جس نے کی ہے‘ طالبان اسکی نشاندہی کریں۔ طالبان نے اس بیان کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے قوم میں اتفاق نہیں پایا جاتا۔ فوج نے برملا اعلان کیا تھا کہ وہ مجرموں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھے گی۔ سابق حکومتی کمیٹی کے رکن رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ حکومت کے اصرار کے باوجود فوج نے کمیٹی میں شامل ہونے سے انکار کیا ہے۔سیاسی حکومت کی موجودگی میں فوج کا مذاکراتی کمیٹی میں شامل نہ ہونا ایک اصولی فیصلہ ہے تاہم فوج نے مذاکراتی عمل کی مکمل سپورٹ کی ہے جس کا فوجی قیادت نے وزیراعظم سے ملاقات کے دوران یقین دلایا۔ وزیراعظم نوازشریف بجا کہتے ہیں کہ خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر امن چاہتے ہیںلیکن یہ وزیراعظم کی خواہش تو ہو سکتی ہے البتہ قابل عمل شاید نہ ہو۔
پاکستان علماءکونسل کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم میاںمحمد نواز شریف نے کہا ہے کہ طالبان کے مطالبات پر غور ہو رہا ہے جس پر حکومتی کمیٹی بحث کریگی تاہم آئین اور قانون سے بالاتر کسی بھی مطالبے کو تسلیم نہیں کیا جائیگا۔ حکومت ملک میں امن لانے کی خاطر طالبان کے ساتھ مذاکرات میں سنجیدہ ہے۔ وہ طالبان جو عسکری کارروائیوں میں ملوث نہیں انھیں رہا کیا جائیگا۔ حکومت ملک میں امن و استحکام لانے کیلئے درپیش مشکلات کو حل کرنے کیلئے پرعزم ہے۔
موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے نو دس ماہ ہو گئے ہیں‘ اس نے دہشتگردی کے خاتمے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی پیشکش کی۔ نو دس ماہ پیشکشوں اور جوابی پیشکشوں میں گزر گئے۔ ابھی تک باقاعدہ مذاکرات شروع نہیں ہوئے۔ مذاکرات شروع ہوئے تو انکی کامیابی کی ضمانت ہے نہ انکے خاتمے کا کوئی ٹائم فریم دیا جا سکتا ہے۔ طالبان اپنے مطالبات میں کمی پیشی کرتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ آئین کو تسلیم کرنے کی بات کرتے ہیں‘ کبھی ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ فریقین کو ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور طالبان کی طرف سے کسی بھی کارروائی کا ارتکاب کرنے کی سرے سے گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے ایسے طالبان کی رہائی کا عندیہ دیا ہے جو عسکری کارروائیوں میں ملوث نہیں لیکن مذاکرات کی کامیابی کا دارومدار طالبان کے رویے پر ہے۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں طالبان کے ملوث ہونے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دو تین روز قبل انکی طرف سے الزام لگایا گیا تھا کہ سکیورٹی ادارے کارروائیاں کر رہے ہیں جس سے جنگ بندی متاثر ہو رہی ہے۔ اگر حکومت کو طالبان کے ایسی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے شواہد ملتے ہیں تو پھر مذاکرات میں وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ جو فیصلہ مزید نقصان کے بعد کرنا ہے‘ وہ آج ہی کرلینا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...