جاگیرداری نظام اور قحط‘ لازم و ملزوم

Mar 15, 2014

جمشید چشتی.....کانچ کی لوح

تھر کی موجودہ صورتحال کسی اچانک حادثے یا قدرتی آفت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک مسلسل منفی عمل کا فطری ردعمل ہے۔ یہ اس جاگیردارانہ نظام اور وڈیرا شاہی کا شاخسانہ ہے جسے سندھ کے غریب عوام بھگت رہے ہیں۔ سندھی وڈیروں اور جاگیرداروں نے پورے صوبے کو اپنی جاگیر اور ملکیت بنا رکھا ہے۔ غریب مزارعین اپنے ’’سائیں‘‘ کو اپنا ان داتا اور رازق سمجھنے اور کہنے پر مجبور ہیں کیونکہ یہ ’’سائیں‘‘ چاہے تو کسی کے گھر میں چولہا جل سکتا ہے۔ نہ چاہے تو کسی کو ایک دانہ بھی کھانے کو نہیں مل سکتا۔ یہ عیاش وڈیرے اور جاگیردار جس کی بہو بیٹی کو چاہیں‘ ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیں۔ جسے چاہیں اغوا کروا لیں۔ جسے چاہیں راتوں رات غائب کروا دیں۔
کسی کی مجال نہیں کہ ان کے خلاف گواہی بھی دے سکے۔ ان کی حویلیوں اور ڈیروں پر ان کی ذاتی جیلیں اور قید خانے اور عقوبت خانے بنے ہوئے ہیں۔ جہاں یہ خود ہی پولیس خود ہی وکیل اور خود ہی جج ہوتے ہیں۔ ان وڈیروں اور جاگیرداروں کی حدود میں ’’حکومت پاکستان‘‘ کی رٹ قائم نہیں ہو سکتی۔ نہ وہاں ہماری اعلیٰ عدلیہ کا کوئی اختیار ہے اور نہ ہی ہماری فوج کا کوئی عمل دخل ہے۔ ابھی بھی یہ حال ہے کہ تھرپارکر میں مسلسل ہلاکتوں کا نوٹس اگر میڈیا نہ لیتا اور اس سانحے کو ’’ہائی لائٹ‘‘ نہ کرتا تو وہاں دنیا کی کوئی طاقت اور کوئی امداد نہ پہنچ پاتی۔ سندھی وڈیرے تھرپارکر کی موجودہ صورتحال سے نہیں‘ اس کی مسلسل کوریج اور بیرونی امداد سے خوفزدہ؟ ’’خوفزدہ‘‘ تو خیر یہ خدا سے بھی نہیں؟ البتہ پریشان ضرور ہیں۔ وہ بھی عارضی طور پر)
بھارت نے ’’آزادی‘‘ یعنی تقسیم ہند کے فوراً بعد جو سب سے پہلا اور اہم کام کیا تھا‘ وہ یہی تھا کہ تمام جاگیریں حکومت کی ملکیت میں لے لی تھیں اور جاگیرداری نظام کا خاتمہ کر دیا تھا اور زرعی زمینیں ساڑھے بارہ ایکڑ (فی کس) کے حساب سے مزارعین کو دے دیں اور اعلان کر دیا کہ جو کاشت کار دو سال فصل نہیں اُگائے گا اس سے یہ ساڑھے بارہ ایکڑ واپس لے لی جائے گی اور اب یہ عالم ہے کہ پاکستان کو زرعی اجناس بھارت سے درآمد کرنا پڑ رہی ہیں۔ سندھ کی تمام زمینیں بنجر اور بے آب و گیاہ پڑی ہیں۔ ان جاگیرداروں اور وڈیروں کو صرف اپنی زمینوں کا رقبہ بڑھانے میں دلچسپی ہے‘ کاشت کرنے میں نہیں۔ یہی لوگ ہیں جو کالا باغ ڈیم کی مخالفت کر رہے ہیں کہ کہیں یہ ڈیم بن گیا تو سندھی مزارع خوشحال نہ ہو جائیں کیونکہ اگر غریب مزارع خوشحال ہوتے ہیں تو ان کی ذاتی حکومتیں اور جاگیرداری نظام کمزور ہوتا ہے۔
پاکستان کے تین صوبوں میں تین قسم کی مختلف مگر نقصان دہی میں ایک قسم کی ’’جوکیں‘‘ عوام کا خون چوسنے میں مصروف ہیں۔ نہ سندھی وڈیروے چاہتے ہیں کہ ان کے صوبے میں تعلیم اور روزگار اور کھیتی باڑی فروغ پا سکے… نہ بلوچی سردار چاہتے ہیں کہ بلوچستان کے لوگ پڑھ لکھ جائیں اور ترقی کر جائیں… کیونکہ اس سے ان کی سرداریاں اور قبیلے پر گرفت کمزور پڑتی ہے اور خیبر پختونخوا میں یہی کام مذہبی انتہا پسند کر رہے ہیں۔ پورے پاکستان میں ایک صوبہ پنجاب ہے جو ہر لحاظ سے ترقی یافتہ اور خوشحال ہے کیونکہ یہاں کے عوام اور حکمران دونوں صوبے کی ترقی میں سنجیدگی سے اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ باقی تینوں صوبے صرف محرومی کا رونا روتے ہیں اور یہ رونا بھی مگر مچھ کے آنسوؤں جیسا ہے…
اب اکیلے میاں نواز شریف پورے پاکستان کی قسمت کیسے بدل سکتے ہیں۔ جب تک وہاں کے جاگیردار اور وڈیرے حکومت میں شامل ہیں۔ تھرپارکر اور دیگر استحصالی علاقوں کے غریب عوام کی قسمت کیسے بدل سکتی ہے؟ لیکن میاں نواز شریف کوشش کریں کہ یہ جاگیرداری نظام کسی طرح ہماری جان چھوڑ دے ورنہ غریب لوگ اسی طرح بے بسی اور قحط اور بھوک سے مرتے رہیں گے۔ بقول من …؎
دل میں جلتے ہوئے چراغ کی لو
رخ ہوا کا بدل بھی سکتی ہے

مزیدخبریں