’’انڈیا رے انڈیا، تیری کونسی کل سیدھی‘‘

Mar 15, 2014

رفیق غوری

 بھارت کو عام طور پر کریڈٹ دیا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ اور سب سے بڑی منڈی ہے۔ بھارتی جمہوریت کی نیلم پری کو پہچاننے کے لیے سمجھنے اور سوچنے کے دروازے کسی نے خود بند کر لیے ہوں تو اور بات ہے وگرنہ بھارت میں چھوت چھات کا غیر انسانی اور ظالمانہ نظام بھارتی جمہوری قبا کو چاک کرنے کیلئے کافی ہے۔ جمہوریت جسمیں ہر شخص کا حق برابری تسلیم کیا جاتا ہے لیکن بھارت میں کروڑوں شودروں کی روایت بھی ہند متی سماج کی بدولت آج بھی پورے جوبن کے ساتھ موجود ہے۔ مہاتما گاندھی نے عالمی جنگوں کے بعد آزادی کی طرف بڑھتے ہوئے ہندوستان میں ہندو اکثریت کا جال بُننے کیلئے ان شودروں کو ہریجن تو قرار دے دیا تاہم آج تک ہریجن بن جانے والے یہ شودر اسی بدقسمتی اور مظلومیت کا شکار ہیں۔بھارتی جمہوریت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے کرایا گیا آج تک ہر انتخاب جھرلو اور دھاندلی کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ ابھی تازہ تازہ دو مثالیں بھی سب کے سامنے ہیں کہ بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کی طرف سے کرائے گئے انتخابات پر پوری دنیا نے نفرین بھیجی اور ان کی شفافیت کو چیلنج کیا، لیکن یہ سب سے بڑی جمہوریہ ہونے کا دعویدار بھارت ہی تھا جس نے ان جعلی انتخابات کو سند قبولیت بخشی۔
دوسرا تازہ واقعہ بھارت کی ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے ساتھ عوامی مینڈیٹ کے باوجود کیا گیا سلوک ہے کہ کرپشن کے خاتمے کی بات کرنے والی ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کی حکومت کو بھارتی برہمنی جمہوریت کے روایتی بڑوں نے محض چند ہفتوں میں مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔ اب ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے سابق وزیر اعلیٰ کیجروال ہیں کہ آنسو گیس کا دھواں پھانکتے اور لاٹھی چارج ’’انجوائے‘‘ کر رہے ہیں۔ دوسری بھارتی جمہوریت کرپٹ، لٹیروں اور ڈاکووں کے ساتھ کھڑی ہے۔
 رہی بات بھارتی منڈی کی تو یہ انسانی جسموں کے اعضا، انسانی عزت و عفت اور جذبات کی منڈی تو ہو سکتی ہے لیکن جس ملک میں مشہور زمانہ ریل وزیر لالو پرشاد بھینسوں کے چارے تک میں کرپشن کر لے، جس ملک کے آنجہانی وزیراعظم راجیو گاندھی کا نام بوفورس گنوں کے سلسلے میں کمیشن کھانے کے الزامات کی زد میں رہا ہو اور جہاں کے فوجی سربراہ تک اپنی پیدائش کی تاریخ میں ہیرا پھیری کی وجہ سے مشہور ہوں وہاں کی منڈی سے دنیا کی ملٹی نیشنل کمپنیاں کب تک آسودہ رہ سکیں گی۔جس ملک نے سوا کروڑ کے قریب کشمیریوں کوحق خود ارادیت سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود محروم کر رکھا ہے، اپنے بدنام زمانہ ٹاڈا کے قانوں کے ساتھ ہزاروں کشمیریوں کو لاپتہ کرنے سے لے کر حراستی عقوبت خانوں اور تفتیشی صعوبت خانوں میں ہزار ہا کشمیریوں کو شہید کیا اور ہزاروں کو معذور بنا دیا ، اب کشمیری نوجوانوں کو تالی بجانے پر غداری کے مقدمات میں دھر لیا جاتا ہے، کرکٹ میچ میں اپنی پسند کی ٹیم کے حق میں نعرے لگانے پر تعلیم کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ ایسا بھارت جمہوریت کی شاخ نازک پر کب تک بڑی بھارتی منڈی کا گھونسلہ بنائے بیٹھا رہ سکے گا۔
 تامل ناڈو ، میزو رام ، ناگا لینڈ سمیت ایک درجن کے قریب ریاستوں میں انہی محروم طبقوں کی آواز مزاحمت اور بغاوت میں ڈھل چکی ہے۔ تلنگانہ ریاست کا پنگا اس کے علاوہ ہے جبکہ کشمیریوں میں ہتھیار چھوڑ کر بیٹھ جانے والوں کو بھارتی پالیسیاں اور اقدامات ازسرنو ہتھیاروں کی طرف متوجہ کر سکتے ہیں۔ پاکستان جس کا کرکٹ میچ جیت جانا بھارت کو سیخ پا کر دیتا ہے، اس کا پھلنا پھولنا اس چھوٹے دل کے بڑے ملک کو کیونکر گوارا ہو سکتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس کے باوجود پاکستان میں ایسے عناصر کی سرپرستی کی جاتی ہے جو امن کی آشا کے بھاشن دیتے ہیں اور بھارتی آشاؤں کی بھاشا بولتے ہیں۔ مشکل ہے کہ کھیل میں بھی اس قدر تعصب کا مظاہرہ کرنے والے بھارت کی مارکیٹنگ کرنے والوں کو غیور پاکستانی اب بھی چیلنج نہ کریں اور ایسی آشاوں اور نظریات کا بولو رام نہ کر دیں۔ اہل پاکستان کا رویہ کیا ہوتا ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی آزاد منش انتظامیہ اس پر کیا ردعمل دیتی ہے یہ تو بعد کی بات ہے، لیکن میں اتنا ببانگِ دہل کہنا چاہتا ہوں کہ ’’انڈیا رے انڈیا، تیی کونسی کل سیدھی!‘‘

مزیدخبریں