مظفر گڑھ خودسوزی کرنیوالی طالبہ دم توڑ گئی‘ چیف جسٹس کا نوٹس‘ پنجاب اسمبلی میں احتجاج

لاہور+ مطفر گڑھ+  اسلام آباد (خصوصی نامہ نگار+ کامرس رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ)  مظفر گڑھ  میں زیادتی کیس میں پولیس رویہ کیخلاف تھانے کے باہر خود کو آگ لگانے والی طالبہ گذشتہ روز نشتر ہسپتال میں دم توڑ گئی۔  چیف جسٹس آف پاکستان  جسٹس تصدق  حسین جیلانی نے واقعہ  کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے پنجاب حکومت سے  رپورٹ طلب کر لی ہے جبکہ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن نے مظفر گڑھ میں پولیس کی طرف سے زیادتی کے ملزموں کو رہا کرنے پر طالبہ کی خود سوزی کے واقعہ پر شدید احتجاج کیا ہے اور اجلاس سے علامتی آئوٹ کیا۔ مظفر گڑھ میں خودسوزی کرنیوالی طالبہ آمنہ بی بی نشتر ہسپتال ملتان میں دم توڑ گئی۔ مظفر گڑھ کے علاقے بیٹ میر ہزار میں 5 جنوری کو مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا شکار بننے والی طالبہ آمنہ بی بی کے ملزمان کو پولیس نے بے گناہ قرار دیدیا تھا جس پر متاثرہ لڑکی نے تھانے کے باہر خود کو آگ لگالی تھی۔  دوسری جانب چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے  لڑکی کی خودسوزی کا ازخود نوٹس لیکر  آئی جی اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو 17 مارچ کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیدیا ہے۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے خودسوزی کرنیوالی طالبہ کی میڈیکل لیگل اور تفتیشی افسر کی رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پنجاب حکومت اسطرح عوام کو انصاف فراہم کر رہی ہے کہ لوگ  مر جائیں اور انصاف  نہ ملے۔ انہوں نے کیس میں پیشرفت کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔ بی بی سی کے مطابق عدالت نے ریمارکس دئیے کہ صوبائی حکومت اس طرح لوگوں کو انصاف فراہم کرتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تفتیشی افسر نے ملزموں کو بے گناہ کیسے ثابت کیا، میڈیکل رپورٹ میں زیادتی ثابت ہوئی ہے یا نہیں، تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور آئی جی پولیس کو ذاتی طور پر 17 مارچ کو طلب کر لیا۔ علاوہ ازیں طالبہ کی خودسوزی کے واقعہ میں ڈی پی او عثمان ظفر گوندل کو معطل کر دیا گیا ہے جبکہ طالبہ آمنہ بی بی کو موضع منڈی پتانی میں سپردخاک کر دیا گیا ہے جبکہ خودسوزی کرنیوالی آمنہ بی بی کے والدین کا کہنا ہے کہ انہیں انصاف نہ ملا تو وہ بھی خود سوزی کر لیں گے۔ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن نے طالبہ کی خود سوزی کے واقعہ پر شدید احتجاج کرتے ہوئے علامتی واک آئوٹ کیا جبکہ صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بعض این جی اوز مغرب کی آنکھ کا تارا بننے کیلئے اس طرح کے واقعات کو حقائق کے برعکس بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں، وزیراعلیٰ پنجاب نے ایڈیشنل آئی جی انویسٹی گیشن کو تحقیقات کی ذمہ داری سونپی ہے اور پیر کے روز اسکی رپورٹ ایوان میں پیش کر دی جائے گی۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس جمعہ کے روز مقررہ وقت نو بجے کی بجائے ایک گھنٹہ بیس منٹ کی تاخیر سے قائم مقام سپیکر سردار شیر علی گورچانی کی صدارت میں شروع ہوا۔ اجلاس کے آغاز پر جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر وسیم اختر نے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے مظفر گڑھ میں پیش آنے والے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ پولیس کا ملزمان سے پیسے لینے کا کھیل ہے، پولیس وڈیروں کی سرپرستی کرتی ہے۔ اگر لڑکی کے بس میں ہوتا اور اسکے پاس خود کش جیکٹ ہوتی تو وہ تھانے میں جا کر خود کو اڑا لیتی لیکن اسکے بس میں یہی تھاکہ وہ پولیس کی نا انصافی کے خلاف خود کو آگ لگا لے۔ حکومت اس واقعے کی ابتدائی رپورٹ ایوان میں پیش کرے۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے۔ میاں اسلم اقبال نے کہا کہ کس کس واقعہ کا نوٹس لیا جائے گا، حکمران تھانہ کلچر کی تبدیلی کا واویلا کرتے ہیں اور یہ واقعہ تھانہ کلچر کی تبدیلی ہے۔ طالبہ سے زیادتی کے بعد پولیس کی طرف سے انصاف نہ ملنا اس سے بڑی زیادتی ہے۔ اس صورتحال پر حکومت کو مستعفی ہو جانا چاہئے۔ قائم مقام سپیکر نے کہا کہ اگر اپوزیشن اس واقعے پر ایک دن بحث رکھنا چاہتی ہے تو مشاورت کر کے ایسا بھی ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود اپوزیشن کے ارکان ایوان سے علامتی واک آئوٹ کر گئے۔ وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان نے ایوان میں جواب دیتے ہوئے کہا یہ انتہائی قابل مذمت واقعہ ہے۔ اس طرح کے واقعات قطعی نہیں ہونے چاہئیں بلکہ انکا تدارک کیا جانا چاہئے۔ این جی او کی فرزانہ باری مغرب کی آنکھ کا تارا بننے کے لئے ہر وقت اس طرح کے واقعات کی تلاش میں رہتی ہیں اور انہوں نے اس طرح پیش کیا کہ نادر جاگیردار کا بیٹا ہے حالانکہ ایسا کچھ نہیں بلکہ نادر اورآمنہ کا ایک ہی خاندان سے تعلق ہے۔ اس موقع پر اپوزیشن ارکان نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر احتجاج شروع کر دیا اور عارف عباسی نے کہا کہ رانا ثناء اللہ پولیس کو تحفظ دے رہے ہیں اور پولیس کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ ایوان میں رپورٹ پیش کرنے کا وقت دیا جائے ۔ جس پر رانا ثناء اللہ نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ نے پولیس سے چوبیس گھنٹوں میں رپورٹ طلب کی ہے اور پیر کے روز اسکی رپورٹ ایوان میں پیش کر دی جائیگی جس کے بعد اپوزیشن نے احتجاج ختم کردیا۔ قبل ازیں ایوان میں محکمہ مواصلات و تعمیرات سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے گئے۔ صوبائی وزیر ملک تنویر اسلم نے کہا کہ صوبے میں نئی سڑکوں کی تعمیر اور پرانی سڑکوں کی مرمت کی ضرورت ہے لیکن ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے۔ میاں رفیق نے ضمنی سوال میں کہا کہ 371کے ایوان میں سے صرف 76 ارکان اسمبلی کے لئے ہاسٹل کی سہولت ہے کیا حکومت پارلیمنٹ لاجز کی طرح یہاں بھی اس طرح کی کسی تعمیر کا ارادہ رکھتی ہے جس پر صوبائی وزیر نے کہا کہ ہاسٹل کی تعمیر سی اینڈ ڈبلیو کی ذمہ داری نہیں۔ تاہم رانا ثناء اللہ نے کہا کہ میں وزیر اعلیٰ کی طرف سے یقین دلاتا ہوں کہ حکومت کا اس طرز پر لاجز بنانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے کہا کہ حکومت اپنے اللے تللوں اور یوتھ فیسٹیول پر کروڑوں لگا رہی ہے لیکن ارکان اسمبلی کی سہولت کے لئے کچھ نہیں کر رہی۔ صوبائی وزیر ملک تنویر اسلم نے کہا کہ آپ مشینری کی آج نشاندہی کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں اپوزیشن کے احتجاج پر قائم مقام سپیکر سردار شیر علی گورچانی نے اپوزیشن ارکان کی طرف سے ڈسٹرکٹ کوارڈی نیشن کمیٹیوں میں شامل نہ کرنے پر جمع کرائی گئی تحریک استحقاق کمیٹی کے سپرد کرتے ہوئے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کر لی ۔ علاوہ ازیں مظفر گڑھ میں طالبہ کی خودسوزی کیس کی رپورٹ تحقیقاتی اداروں نے وزیراعلیٰ پنجاب کو بھجوا دی۔ ذرائع کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی آر درست تھی پولیس کی تفتیش ناقص تھی۔ طالبہ کو خود سوزی سے پہلے روکا جا سکتا تھا مگر پولیس نے ایسا نہیں کیا۔ پولیس کی جانب سے متاثرہ لڑکی کو کوئی تسلی نہیں دی گئی۔

ای پیپر دی نیشن