لاہور (معین اظہر سے) وفاقی حکومت مردم شماری سے پہلے اسمبلی کی نشستوں اور این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ملنے والی رقوم کو اگلے 30 سال کیلئے 1998ء کی مردم شماری کے مطابق فریز کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اس کیلئے اسمبلی سے منظوری لی جائیگی۔ مردم شماری پر 13 ارب 33 کروڑ کی لاگت آئیگی جس میں فوج اور سول آرمڈ فوسز کو مردم شماری کیلئے تعینات کیا جائیگا۔ بھارت نے بھی اپنے صوبوں کے درمیاں قومی اسمبلی میں سیٹوں کی تقسیم کے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے 1971ء کی مردم شماری کے تحت قومی اسمبلی کی سیٹوں کو 2026ء تک فریز کردیا ہے جس کی وجہ سے حکومت پاکستان نے بھی بھارت کا ماڈل اپنانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ بعض صوبے، کمیونٹی اور برادریاں قومی اسمبلی کی سیٹوں میں اضافہ اور زیادہ فنڈز کی وجہ سے اپنی آبادی میں غیرحقیقی اضافہ ظاہرکردیتے ہیں۔ حکومت نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت کی خانہ شماری کے رزلٹ کو کینسل کر دیا ہے، اگلے سال اپریل میں خانہ شماری اور مردم شماری پندرہ روز میں مکمل کرلی جائیگی جبکہ شماریات ڈویژن کو اپنے مردم شماری کیلئے بلاکس مکمل کرنے کی ہدایات کی ہیں جس پر تقریباً 6 ماہ اور 65 کروڑ روپے کا خرچہ آئیگا جبکہ اکتوبر میں محکمہ تعلیم اور ریونیو سٹاف کی ڈویژنل لیول پر ٹریننگ شروع کردی جائیگی۔ ملک میں ہر 10 سال بعد مردم شماری لازمی کروانی ہوتی ہے اسلئے پاکستان میں1951ء ، 1961ئ، 1972ء اور 1981ء میں مردم شماری ہوتی رہی جبکہ 1991ء کی مردم شماری 17 سال بعد 1998ء میں ہوئی تھی جبکہ اس کے بعد 2008ء میں مردم شماری ہونی تھی جس کو 2014ء تک نہیں کروایا جاسکا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 2011ء مارچ ، اپریل میں خانہ شماری ہوئی تھی جس میں اندرون سندھ کی آبادی اور کراچی کی آبادی کو ڈبل کردیا گیا تھا جبکہ پنجاب کی آبادی 1998ء کی مردم شماری کے مقابلے میں کم تھی جس پر اختلافات کی وجہ سے مردم شماری کا آپریشن نہیں ہوسکا تھا۔ اب وفاقی حکومت نے مردم شماری کیلئے بھارت کی طرز پر پاکستان میں ماڈل اپنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت قومی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم جو آئین کے آرٹیکل 51 کی شق 5 کے تحت ہوتی ہے اسی طرح این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ملنے والی رقوم کو اگلے 30 سال تک فریز کر دیا جائیگا۔ فوج کو مردم شمار ی میں شامل کیا جائیگا جس کیلئے فوج کو بھی 6 ارب روپے دئیے جائیں گے جس کیلئے تقریباً ایک لاکھ فوجی جو ہر ٹیم کے ساتھ ہونگے، پندرہ روزہ اس مہم میں شرکت کریں گے۔ اس کیلئے صوبائی حکومتیں تقریباً 2 لاکھ اپنے ملازمین کی خدمات فراہم کریں گی جن کی ٹریننگ نئے بلاکس بننے کے بعد شروع ہوجائیگی، انکی ٹریننگ کے بعد اگلے سال مارچ اور اپریل میں خانہ شماری جو تین روز میں مکمل ہوگی ، جبکہ 15 روز میں مردم شماری کا آپریشن مکمل کر لیا جائیگا۔ اس مردم شماری سے تین ماہ پہلے اور تین ماہ بعد تک حکومت یا صوبائی حکومتیں کوئی بھی نیشنل، یا صوبائی لیول کے فنکشن یا تقریبات منعقد نہیں کر سکیں گی تاہم آئندہ بجٹ میں وفاقی حکومت مردم شماری کیلئے رقوم مختص کردیگی۔ تاہم واضح رہے کہ 2011ء اکتوبر میں مردم شماری کیلئے فوج نے تقریباً 1 لاکھ فوجی ملازمین کی خدمات مردم شماری کیلئے دینے سے انکار کر دیا تھا جس کیلئے فوج کی طرف سے کہا گیا تھا فوج چونکہ دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کیلئے قبائلی علاقوں میں تعینات ہے اسلئے اتنی زیادہ فورس مہیا نہیں کی جاسکتی ہے۔ تاہم اگلے سال مارچ اپریل دہشت گردی کے حالات بہتر ہوجائیں گے یا نہیں جبکہ اگر اس سال ستمبر اکتوبر تک اگر تین صوبوں میں بلدیاتی الیکشن نہ کروائے گئے تو وہ 2015ء اکتوبر تک ملتوی ہوجائیں گے کیونکہ مردم شماری کے بعد اس کے زرلٹ کے آنے میں تقریبا 6 ماہ لگیں گے۔