اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ سجاد ترین) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے خدانخواستہ اگر ملک میں جمہوری نظام کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو ہم مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی ٹانگ کھینچنے کی بجائے اس کے ساتھ کھڑے ہونگے۔ پیپلز پارٹی پوری قوت کے ساتھ غیرجمہوری عناصر کے خلاف مزاحمت کرے گی۔ ہم جمہوری قوتوں کے ساتھی ہیں ان کے ساتھ ہی نباہ کریں گے۔ ہم 1973ء کے آئین کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنا چاہتے تھے لیکن مولانا فضل الرحمنٰ اس کی راہ میں حائل ہوگئے۔ ہم کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی اس لئے مخالفت کر رہے ہیں کہ پنجاب نے چشمہ کینال پر ’’اعتماد کو مجروح‘‘ کیا ہے اس کے بعد تو اعتبار ہی ختم ہو گیا ہے ہم خلوص دل سے حکومت کیساتھ چلنا چاہتے ہیں لیکن حکومت کا ہی پتہ نہیں اس نے ابھی تک سمت کا تعین نہیں کیا۔ حکومت بڑے بڑے فیصلے کر لیتی ہے لیکن اپوزیشن کو اعتماد لینا تو دور کی بات ہے ہماری کوئی بات ہی سننے کو تیار نہیں ’’آدھا تیتر اور آدھا بٹیر‘‘ نہیں چلے گا۔ حکومت کو طالبان سمیت کچھ ایشوز پر کلیئر ہونا پڑے گا۔ ایسا دکھائی دیتا ہے حکومت فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئی ہے جس کے باعث عام لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ حکومت ناکام ہو گئی ہم نہیں چاہتے حکومت کی ناکامیاں جمہوری نظام کو لے ڈوبیں اسی لئے ہم نے وزیراعظم محمد نواز شریف سے کہا ہے کہ ’’قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ انہوں نے یہ بات جمعہ کو ’’نوائے وقت‘‘ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔ خورشید شاہ نے کہا کہ میں حکومت کے بارے میں جو کچھ بھی کہتا ہوں پارٹی لائن کے مطابق ہی کہتا ہوں پارٹی لائن سے ہٹ کر کوئی بات نہیں کر سکتا۔ ہم نے طالبان کے ایشو پر مذاکرات کی حمایت کی۔ اسے ڈائیلاگ کے ساتھ ’’ڈیٹرنس‘‘ کی بات بھی کرنی چاہئے ہم حکومت کو آگے کر کے پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپنا چاہتے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف اہم قومی فیصلوں میں اپوزیشن لیڈر کی رائے لینا ہی گوارہ نہیں کرتے۔ کوئی حکومت حالات کو خرابی کی طرف لے جانا نہیں چاہتی لیکن اس نے جو راستہ اختیار کررکھا ہے اس سے وہ منزل سے بھٹک جائے گی۔ طالبان کے ایشو پر وزیراعظم نواز شریف عمران خان کے پاس نہ صرف خود چل کر جاتے ہیں بلکہ مذاکراتی کمیٹی میں نمائندگی دیتے ہیں دونوں باہم شیرو شکر ہو جاتے ہیں لیکن وہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کو قابل اعتنا بھی نہیں سمجھتے۔ ملک میں 26 انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں پھر بھی وفاقی وزیر داخلہ طالبان سے استفسار کرتے ہیں کہ اس واقعہ میں کون سا گروپ ملوث ہے۔ پیپلز پارٹی جمہوری نظام کو عدم استحکام کا شکار کرنے کیلئے کسی کی آلہ کار نہیں بن سکتی۔ ہم نے مفاہمت کی سیاست کی بنیاد رکھی تھی اس کو ہی فروغ دے رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے۔ ہم حکومت گرانے کی کسی تحریک کا حصہ نہیں بنیں گے۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں موجود ہے جلد بلاول بھٹو زرداری پنجاب کا دورہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کو ایک صفحہ پر ہونا چاہئے اگر فوج بھی ان کے ساتھ ایک صفحہ پر نہ ہو تو یہ بدقسمتی ہو گی۔ علاوہ ازیں نوائے وقت رپورٹ اور این این آئی کے مطابق سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات پر جب تک وزیراعظم ڈاکٹر نواز شریف مجھ سے بات نہیں کریں گے تو میں بھی نہیں کروں گا۔ امین فہیم اور سندھ حکومت میں کوئی اختلاف نہیں اس حوالے سے خبریں بے بنیاد ہیں۔ وزیراعظم ڈاکٹر نواز شریف نے پاکستانی روپے کو استحکام دینے کیلئے جو ڈیڑھ ارب ڈالر لئے ہیں اس کا معاملہ قوم کے سامنے لایا جائے۔ ڈالر کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے معیشت بری طرح متاثر ہو گی حکومت صورتحال واضح کرے۔ علاوہ ازیں ایک بیان میں خورشید شاہ نے کہا ہے کہ یہ سننے میں آرہا ہے کہ وزیراعظم نے اپنی ذاتی ضمانت پر سعودی حکومت سے ڈیڑھ ارب ڈالر حاصل کئے ہیں یہ بتایا جائے کہ یہ رقم کس مد میں حاصل کی گئی ہے۔ کیا یہ قرض ہے یا امداد، اگر قرض ہے تو اس کی شرائط قوم کو کیوں بتائی نہیں جا رہیں۔