ُٓپاکستان کے سیاستدانوں کی کریڈیبلٹی کا یہ حال ہے کہ معاشرے میں جب کسی کو بُرے الفاظ سے یاد کرنا ہو تو کہتے ہیں یار وہ بڑا سیاسی آدمی ہے ۔ یا پھر تم تو شریف آدمی ہو تمہارا سیاست میں کیا کام گویا عوام سیاستدانوں کو نہ اچھا سمجھتی ہے نہ شریف۔ 1985ء کی اسمبلی کے بعد پاکستان کی سیاست میں پہلی بار پیسے کا عمل دخل نظر آیا اور بلا شبہ اس کی شروعات میاں نواز شریف نے کی۔ کیونکہ بنیادی طور پر وہ ایک صنعت کار تھے اور جانتے تھے کہ پیسہ خرچ کر کے پیسہ کمایا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب پاکستانی سیاست اُس وقت کلی طور پر وڈیروں ، جاگیرداروں اور نوابوں کے ہاتھ میں تھی جو روپیہ پیسہ کے خرچ سے نا آشنا تھے۔ پاکستان دُنیا کا شاید واحد ملک ہے جس کی حکمرانی کیلئے آپ کودُنیاوی طور پر صرف ووٹوں کی ضرورت ہی نہیں پڑتی بلکہ اس کیلئے آپ کو انکل سام کو وفاداری کا یقین ، بادشاہ کی تابعداری اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی شرائط کو ماننا لازمی ہے۔ پہلے لوگ سادہ ہوتے تھے ذرائع خبر محدود تھے تو پتہ نہیں چلتا تھا۔ اب حالات اسکے برعکس ہیں۔ اس ملک میں ڈکیتی ، اقدامِ قتل کے سنگین نامزد ملز م کو سیاسی بلیک میلنگ کی بنیاد پر گورنر تعینات کردیا گیا۔ اس بحث سے قطع نظرکہ یہ کیوں ہوا کیسے ہوا کس کی کمزوری اور کوتاہی ہے یہ الگ بحث ہے اسکااحاطہ کسی دوسرے کالم میں کرینگے۔ سر دست بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ حقیقت ہے۔ جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے اور بطور ایک جیالے کے واقعات جھوٹ نہیں بولتے۔ پاکستان کی الیکشن سیاست بھی اس طرح ایک عجیب گورکھ دھندہ ہے۔ یہاں بعض خاندانوں ، نوابوں ، جاگیرداروں کی پاکٹ اتنی مضبوط ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی اُن کو نظر انداز کرنے کا رِسک نہیں لیتی ۔ یہ معاشرہ مختلف عقائد ، برادریوں ، قوموں پر مشتمل ہے اور شایدواحد ملک ہے جہاں پرہر خراب نعرے کی بنیاد پر ایک جماعت کا وجود موجود ہے۔ اس پر بھی تبصرہ پھر کبھی ۔ کیوں نہیں لوگ کسی شریف ، ایماندار اور عام آدمی کو ووٹ دیتے چاہے وہ آزاد حیثیت سے الیکشن کیوں نہ لڑرہا ہو یا کسی کم مقبول پارٹی کے پلیٹ فارم سے۔ ایک جملہ شاید پاکستان کے عوام اپنے جیسے عام آدمی کو لیڈر کے طور پر برداشت کرنے کی ابھی قوت نہیں رکھتے۔ میڈیا ، ٹی وی نیوز کے آنے سے پہلے دو بڑے اخبارات کا اس ملک کی سیاست اور سیاستدانوں کی امیج بلڈنگ میں بنیادی کردار رہا ہے۔ پھر نیوز چینلز کے آنے کے بعد معاملات یکسر تبدیل ہو گئے۔ نیوز چینلز کے مالکان تو دُور کی بات بڑے اینکرز خود کو اس ملک کی سیاست میں سٹیک ہولڈر سمجھنے لگے ۔ بعض میڈیا ہائوسز باقاعدہ سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں لانے یا گرانے کی پلاننگ اور کوشش کرتے ہیں۔ اس ملک کے صنعت کار جو کچھ دہائیوں پہلے موٹر سائیکل پر سوار روزگار کی تلاش میں تھے۔ آج اس بات کو اپنا حق سمجھتے ہیں کہ جس کو وہ چاہے وہ اقتدار میں آکر انکے Business Empireکو تحفظ دیں۔ کئی صنعت کار دونوںبڑی پارٹیوںپرانویسٹمنٹ کرتے ہیں تاکہ جو بھی جیت جائے اُنکے مطابق پالیسیاں ترتیب دیں جسکی سر راہ مثال آٹو موبائل گاڑیوں کی کمپنیاںہیں حکومت کسی کی بھی ہو دس لاکھ والی گاڑی 25لاکھ میں اس لئے فروخت ہو رہی ہے کہ بیرونِ ملک سے کاروں کی درآمد پر مختلف ڈیوٹیاں اور پابندیاں رائج ہیں اور اگر کوئی وزیر اس پالیسی کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے تو اُسکی وزارت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ یہ مختصراًمنظر کشی ہے جس کا سامناعمران خان کو ہے۔ کپتان پاکستانی سیاست کے واحد غیر روایتی پلیئر ہیں اور شاید اپنی زندگی کی سب سے Crucial Inning کھیل رہے ہیں جس کی کامیابی یا ناکامی کے ملک پر بہت گہرے اثرات مرتب ہونگے۔ کیونکہ اس ملک کی نوجوان نسل نے اُنکی تبدیلی اور اسٹیٹس کیخلاف موقف کو پذیرائی بخشی ہے۔ کپتان نے 42سال کی عمر میں اپنے کرکٹ کیریئرکے شاندار اختتام کے بعد 1996ء کو تحریکِ انصاف کی داغ بیل ڈالی۔ 16سال تک اُن کو کامیابی حاصل نہ ہو سکی اس لئے کپتان کی اس دلیل میں کافی وزن ہے کہ دولت، شہرت ،عزت اُن کو نوجوانی میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے دورانِ تعلیم ہی حاصل ہو گئی تھی۔ میری جدوجہد ملک میں نظام کی تبدیلی کیلئے ہے۔ نظریے کے بغیر ورنہ 16سال جدوجہد کرتے رہنا مشکل ترین عمل ہے۔ کپتان نے شائد نیلسن منڈیلا سے خوف پر غالب آنے کا فن سیکھ لیا ہے۔ لیکن کپتان کو یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عوام نے کسی بھی لیڈر کو اتنی محبتوں اور اعتماد سے نہیں نوازا ہے۔ 2012ء گلوبل پوسٹ کیمطابق عالمی نو لیڈروں میںکپتان کی مقبولیت کا نمبر تیسراتھا۔ اب کپتان کی اصل قائدانہ صلاحیتوں کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح ان تمام مشکلات کو درست طریقے سے عبور کرتے ہوئے تحریکِ انصاف کو حکومت میں لانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ملک کی بیشتر جماعتیں اُنکے خلاف اکٹھی ہو جائیں۔ کپتان اگر پارٹی کو منظم طریقے سے چلانے میں کامیاب ہوگئے اور پارٹی میں بیشمار ٹیلنٹ والے لوگ جن کی صلاحیتوں سے ابھی فائدہ نہیں اُٹھایا اُنکو اپنی ٹیم بنا کر آگے لے آئے تو کامیابی کے نزدیک ہو جائینگے۔ کسی بھی لیڈر کیلئے ٹکٹوں کی تقسیم ایک کڑے امتحان سے کم نہیں ۔ اس دفعہ وہ امتحان بھی کپتان کے سر پر کھڑا ہے۔ اگر وہ اس سیاسی پُل صراط پر کامیابی سے گزرنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ ملکی تاریخ کا دھارا موڑنے میں کامیاب ہو جائینگے۔ جس کیلئے اُن کے پاس یہ بہترین وقت ہے۔