شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ اقتدار کے خاتمے کے بعد جب پیپلزپارٹی اور آصف علی زرداری مشکلات اور بدنامی کی گہرائیوں میں گر چکے تھے تو شہید محترمہ نے سینیٹر ڈاکٹر جہانگیر بدر کو یورپ یہ مشن دے کر بھیجا کہ مطلوب وڑائچ کو واپس لاﺅ اور اسے ہم سے ملواﺅ۔ میں پاکستان آیا تو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے چیمبر میں آصف علی زرداری نے مجھے گلے لگایا اور میری گردن کا بوسہ لیتے ہوئے یوں ہمکلام ہوئے کہ ”خدا نے تمہیں میرے لیے فرشتہ بنا کر بھیجا ہے“ مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے ان ظالموں کے چنگل سے چھڑا لو گے۔ یاد رہے اس موقع پر اظہار امروہوی،فہمید ہ مرزا اور جہانگیر بدر بھی موجود تھے۔ پھر میں نے اپنے ملکی او رعالمی دوستوں کے ساتھ مل کر شہید بی بی اور آصف علی زرداری کی رہائی کیلئے دن رات ایک کر دیا۔ میں نے اور میرے سوئس دوستوں نے اس مشن کو تکمیل تک پہنچانے کیلئے اَن تھک خدمات انجام دیں۔ خاص طور پر ”مسٹر گیدو“ اور ”مسٹر فٹسے“ کو آصف علی زرداری کیلئے کاوشیں کرنے کی پاداش میں اپنے ادارے سے برخاست کر دیا گیا جبکہ ایک سوئس مجسٹریٹ ”مسٹر رمی بٹس کو شہید محترمہ اور آصف علی زرداری کے سوئس کیسز میں سرکاری مداخلت کی بنا پر ملازمت سے فارغ کر دیا گیا مگر ان تینوں یورپی دوستوں کے لبوں پر حرفِ شکایت تک نہ آیا ۔ جب آصف علی زرداری پاکستان کے صدر منتخب ہوئے تو یہ تینوں یورپی دوست مجھے ملے اور کہنے لگے کہ ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے فقط صدر پاکستان آصف علی زرداری ہماری خدمات کے صلے میں چند الفاظ ہی لکھ کر بھیج دیں مگر انہیں کیا پتہ کہ اس آصف علی زرداری نے اقتدار ملنے کے بعد اپنی برسوں کی ہوس مٹانے کیلئے آنکھوں پر بیگانگی کی ایسی عینک چڑھا رکھی تھی کہ اسکے کل کے دوست آج کے آئینے میں بمشکل نظر آ رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ روز ایک معروف صحافی نے جب انٹرویو لیتے ہوئے سابق صدر سے پوچھا کہ انکے عزیر بلوچ کیساتھ کیا مراسم ہیں تو انہوں نے عجب شانِ بے نیازی سے جواب دیا۔ ”ہُو اِز شی؟“
گذشتہ روز پی پی پی امریکہ کے صدر شفقت تنویر کے گھر عشایئے سے جب پی پی پی کے مشہور جیالے لیڈر جس نے شہید بی بی کیلئے خصوصی خدمات سرانجام دیں۔ خالد اعوان جب تقریر کر رہے تھے تو اپنے پہلو میں بیٹھے ہوئے شفقت تنویر سے آصف علی زرداری نے پوچھا ”ہُواز شی؟“ جب شفقت تنویر نے مجھے یہ بتایا تو مجھے اچنبھا نہیں ہوا۔مجھے اس موقع پر حضرت علیؓ کا قول یاد آ رہا ہے کہ ”ڈرو اس شخص کے شر سے جس پر تم نے کبھی کوئی احسان کیا ہو“۔ جھورا جہاز آفس میں داخل ہوا تو اسکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے میں نے وجہ پوچھی تو جیسے پھٹ پڑا ،بولا میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا کہ ارض وطن میں کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے کبھی تو یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے حساس ملکی معاملات پر وزیراعظم نوازشریف اور چیف آف آرمی سٹاف راحیل شریف کے درمیان تنازعات کی ایک وسیع خلیج موجود ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، اینکرز ،کالمسٹ ، دانشور اور تجزیہ نگار افراد دو واضع حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ روزانہ شام 7سے 12بجے کے پرائم ٹائم کے دوران ان دکانوں پر چاند رات جیسا رش ہوتاہے کہ ہر کوئی اپنے حصے کا نمک حلال کرنے کے چکر میں ہوتا ہے۔سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے بعد سے لیکر دھرنوں تک ، پھر سانحہ اے پی ایس سے لےکر سانحہ صفورہ چونگی، ضربِ عضب، سانحہ باچا خان یونیورسٹی، بیچ میں کہیں کہیں ضمنی انتخابات کا تڑکا یا پھر کرکٹ میں شکست کی داستانیں اور ممتاز قادری کی پھانسی، حقوقِ نسواں بل یہ وہ چند ایشوز ہیں جنہیں وقفے وقفے سے لانچ کرکے پہلے سے موجود سیاسی درجہ حرارت کو اسٹاک ایکسچینج کی مانند کبھی اوپر لے جایا جاتا اور کبھی یکدم نیچے اور کبھی کبھی کھیل کی یوریت دور کرنے کیلئے کراچی سے مصطفی کمال اور بلوچستان سے شہباز تاثیر کو برآمد کر دیا جاتا ہے۔ کیا اسکی وجہ یہ تو نہیں کہ ہماری عسکری قوتیں لبرل پروگرایسو قوتوں کو ٹشو پیپرز بنا کر اپنے مفادات حاصل کرتی ہیں؟ لیکن ان قوتوں کو یاد رکھنا ہوگا کہ وہ ایک ٹشو کو کب تک استعمال کرتے ہیں۔
ملکی سلامتی کیلئے بلامعاوضہ مفادات کے بغیر وسیع تر قومی مفاد کیلئے کچھ اہل قلم چند اینکرز اور دانشور پاک فوج کے تشخص کو جتنا اُجاگر کرتے ہیں اسے جنرل راحیل شریف، نوازشریف کے ساتھ گاڑی ڈرائیو کرکے بے اثر کر دیتے ہیں۔ پھر کچھ لوگ عوام کے گِرے ہوئے مورال کو بلند کرنے کیلئے حیلے بہانوں سے اسے پھر سے موٹیویٹ کرتے ہیں مگر کیا کریں یہ سول و ملٹری ڈرامہ ہے یا تماشہ کہ پچھلے کم از کم ایک سال سے میاں نوازشریف جس بھی غیر ملکی دورے پر گئے راحیل شریف انکے ہمقدم ، ہمراہ تھے۔ خاص طور پر ہمارے برادر عرب ممالک یا تو اکیلے نوازشریف پر، یا اکیلے راحیل شریف پر اعتبار ہی نہیں کرتے اس لیے وہ دونوں بڑوں کو مشترکہ پیکیج دے دیتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم نوازشریف شاید ایک پیج پر تو خود کو ظاہر کر رہے ہیں مگر خربوزہ چھری پر گرے یا چھری خربوزے پہ نقصان تو خربوزے کا ہی ہوگا۔
قارئین جسٹس خلیل الرحمن خان جنہوں نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی جے آئی ٹی پر فیصلہ سنایا تھا یہ نظر انداز کرتے ہوئے کہ چودہ شہادتوں اور سینکڑوں زخمیوں کا لہو چھپایا نہ جا سکے گا۔ گذشتہ روز اِنکی ریٹائرمنٹ کے بعد حسب وعدہ، حسب انعام انکے بیٹے کو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب لگا دیا گیا۔ اس پر تبصرہ کیا کریں فقط یہی کہتے ہیں کہ ایسے حسین اتفاقات صرف زمانہ¿ شرافت میں ہی ہو سکتے ہیں۔ آصف علی زرداری اور الطاف حسین دونوں قائدین ہی آ جکل بات کہہ کر مکر جانے کے عادی ہو چکے ہیں۔ شاید ان کی تقریروں کے ترجمے کیلئے ایک نئی ڈکشنری تیار کرنی پڑےگی۔