ڈسٹرکٹ اکاوئنٹس آفس حیدر آبادکے مرکزی ملزم ارب پتی مشتاق احمد شیخ کو 14روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا گیاہے۔مشتاق احمد ایک تنخواہ دار سرکاری ملازم تھااور ملازمت سے بطور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اکاﺅنٹس آفیسر رٹیائرڈ ہو اتھا۔ اُس پر الزام ہے کہ اُس نے دیگر اہلکاروں اوربنکرز کے ساتھ مل کر بوگس بلز بنا کر قومی خزانہ کو اربوں روپے کا ایک بڑا ٹیکہ لگایا ہے۔ یہ ٹیکہ کتنا بڑاہے اِس کی شدت جاننے کے لیے اُس کو گرفتار رکر کے جسمانی ریمانڈ حاصل کیا گیا ہے۔ نیب کا کہنا ہے کہ اِس تنخواہ دار سرکاری ملازم سے بوقت گرفتار ی 17.3ملین روپے نقد کیش بشمول سعودی ریال، پرائز بانڈز، اورتین کلو گرام سو نے کے زیوارت ، سیو نگ سرٹیفیکیٹ مالیت ایک لاکھ روپے، 40ملین روپے کی بزنس سرمایہ کاری کی دستاویزات اور مختلف بینک اکاﺅنٹس کی 31چیک بکُس برآمد کی گئی ہیں۔ مذید براں موصوف کے نام پر 09عدد رجسٹرڈ گاڑیاں ہیں۔ اِ س کے علاوہ ڈی ایچ اے کراچی میں 02 بنگلے اور 02پلاٹ، بحریہ اسپورٹس سٹی کراچی میں02پلاٹ،ہالہ میں02گھر اور ایک عدد 45ایکڑ رقبہ،85 بھینسوں ، 31 گائیں، 30 بکریوںپر مشتمل فارم ہاﺅس،ہالہ میں ہی 200ایکٹر زرعی زمین، حیدر آباد کے علاقہ قاسم آباد میں 03گھر اور 02فلیٹس ہیں۔ بظاہر عام آدمی کے لیے یہ اعداد وشمار حیران کُن ہوں گے مگر راقم الحروف کے لیے نہیں کیونکہ موجودہ افراتفری اور لوٹ مار کے اِس ماحول میں ایک معمولی تنخواہ دار ملازم اگر ایک دو ارب کی لوٹ مار کر رہا ہے تو اب یہ بات انہونی نہیں رہی کیونکہ اِس ملک کے حکمرانوں پر تو کئی کھربوں روپے لوٹنے کے الزامات زیر گردش ہیں۔ جب ریاست کے حکمران کرپٹ ہوں گے تو اُن کے ماتحت پھر حسب موقعہ او ر اپنی استاد گیری کی بناپر جتنا لوٹ سکیں گے وہ پھر قومی خزانہ کو لوٹیں گے۔ اس معمولی نوعیت کے واقعہ سے قبل 06مئی2016کو نیب بلوچستان نے سیکٹریری فنانس مشتاق احمد رئیسانی کو اُس کے دفتر سے چھاپہ مار کر گرفتا رکیا تھا۔ اتفاقاً دونوں ملزمان کا نام مشتاق احمد ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ ا یک شیخ اور دوسرا رئیسانی ہے۔ رئیسانی کے گھر سے بھی اُس وقت 10ملین روپے کا سونا اور ملکی و غیر ملکی کرنسی مالیت 730ملین روپے برآمد ہوئی تھی۔ رئیسانی نے ٹھیکہ دار سہیل مجید شاہ کے ساتھ ساز باز کرکے 06ارب روپے کے لوکل گورنمنٹ ترقیاتی فنڈز میں سے 2.31ارب روپے غبن کیے تھے۔ 22دسمبر 2016کو نیب کی سرکاری پریس ریلز میں کہا گیا کہ نیب آرڈنینس1999کی دفعہ 25Aکے تحت دنوں ملزمان سے 3.25ارب روپے کی پلی بارگین طے ہوئی ہے۔ اِس شق کے مطابق ملزم کو دیگر سزائیں تو ملتی ہیں لیکن عمر قید کی سزا نہیں ہوتی۔ اضافہ میں لوٹی ہوئی رقم کا طے شدہ حصہ واپس کرنے اور مختصر سالوں کی قید کے بعد ملزم پھر سے بے گناہ بن جاتا ہے۔اِس رضاکارانہ رقم واپسی میں کس قدر قومی خزانے میں واپس جاتی ہے اور کس قدر رضا مندی سے رکھ لی جاتی ہے وہ سب اِس شق 25Aکی آڑ میں ہوتا ہے۔ عدالت عظمی سمیت دیگر فورم پر اِس پر بحث ہو چکی ہے تاہم ابھی تک یہ شق ایک قانونی حقیقت ہی ہے۔ ان حالات میں ایک سابقہ اکاوئنٹس آفیسر اگر ایک دو ارب روپے کا غبن کر جاتا تو اِسی لیے کہا تھا کہ یہ انہونی بات نہیں ہے کیونکہ من حیث القوم اب ہم بے ضمیر اور بے حس ہو چکے ہیں۔ کرپشن اور لوٹ مار کو ہم اِس حد تک اپنا چکے ہیں کہ ہمیں اب سرکاری افسروں کی کرپشن لوٹ مار لگتی ہی نہیں۔ اب تو جو جتنا بڑا کرپٹ افسر ہو تا ہے وہ اُتنا ہی قابل عزت ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دنوں ڈیرہ غازی خان میں ایک سرکاری افسر کی جب مدت ملازمت پوری ہوئی تو اُس کی رٹیائرمنٹ کی الوداعی تقریبات میں معززین شہر نے ڈرامائی انداز میں سٹیج سجائے اور اُس کو جن الفاظ کے ساتھ خراج عقیدت پیش کی اُن تعریفی کلمات کو سُن کر تو شائد شیطان بھی خود سے شرمندہ ہو گیا ہوگا۔ حالانکہ اِس موصوف کی ساری ملازمت الزامات اور انٹی کرپشن کے کیسوں میں گزری ہے۔ حیدر آباد کے مشتاق شیخ کی مانند اگر کبھی نیب اِس کا کھوج لگائے تو یقینی طور پر کئی بنگلے ، فارم ہاﺅس، سرمایہ کاری کی دستاویزات اور آف شور کمپنیاں برآمد ہوں گی۔ چاہے بعدمیں پلی بار گین ہی کیوں نہ ہو جائے بہر حال یہ تو حقیقت ہے کہ سرکاری ملازم کسی کی آشیر باد کے بنا لوٹ مار نہیں کرتا اور اگر مقصود ہوتو اِن آشیر باد دینے والوں کو بآسانی تلاش بھی کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ لوگ اُس کرپٹ افسر کے حلقہ احباب میں اول تا آخر ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ بس دیکھنے والی نگاہ کی ضرورت درپیش رہتی ہے۔