سینٹ الیکشن ،نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

نومنتخب چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے حلف برداری کے بعد بلاول زرداری اور عمران خان سے نیازمندانہ ملاقات کی اس موقع پر وزیراعلی بلوچستان بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس پر تو…؎ ’’یہ ملاقات اک بہانہ ہے… پیار کا سلسلہ پرانا ہے‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے جن قوتوں کی مدد سے کوئی معمولی لشکر ایک بڑا معرکہ سر کرتا ہے وہ ان کا ممنون احسان تو ہوتا ہی ہے۔ بس اس خوشی کے لمحات میں اس لشکر کے سپاہی بھول جاتے ہیں کہ اب ان کی فتح اور اختیارات مدد کرنے والی قوتوں کے پاس چلے گئے ہیں۔ اب وہ جو چاہیں گے وہی ہو گا۔ فاتحین کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔ سو ایسی ہی کھوکھلی فتح عبدالقدوس بزنجو، صادق سنجرانی اور سلیم مانڈوی والا کو مبارک ہو۔ صرف انہیں ہی نہیں آصف زرداری اور عمران خان کو بھی جنہیں جلد اندازہ ہو جائے گا کہ وہ سواری کس کام کی جس کی باگ ہی اپنے ہاتھ میں نہ ہو اور پاؤں رکاب میں نہ ہو۔
سو اب چیئرمین سینٹ، وزیراعلی بلوچستان، آصف زرداری اور عمران خان ایسی ہی بس میں یا ٹرین میں سوار ہو چکے ہیں جس کا ڈرائیور کوئی اور ہے۔ اس ٹرین یا بس کا روٹ کیا ہے یہ بھی ڈرائیور کو معلوم ہے۔ سواریاں عقل سے عاری ہیں۔ انہیں بس گاڑی میں چڑھنے کی جلدی تھی۔ اب نہ منزل کا پتہ ہے نہ راستے کا۔ بس شکر ادا کر رہے ہیں کہ جگہ مل گئی۔ بااثر ہاتھوں نے نہایت اطمینان سے اپنے کنٹرولڈ ڈیموکریسی والے فلسفے میں اس خوبصورتی سے جان ڈال کر رنگ بھرا کہ کس کے گمان میں ہی نہ تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ دو چار ووٹوں کا فگر ایسا بڑھا، گنتی کی ہیرا پھیری ایسی ہوئی کہ 2+2 چار کا فارمولا بدل کر 22 بائیس کی شکل اختیار کر گیا۔ وہ انگلی جس کے اشارے انتظار میں عمران خان نے 5 برس گزار دیئے وہ ایک مکمل ہاتھ بن کر آصف زرداری کا کاندھا تھپتھپاتی نظر آئی اور انگلی کے اشارے کے منتظر خان صاحب طوعاًوکرہاً آصف زرداری کے دامن عافیت میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ یہ صاف اور کھلا پیغام تھا ان بااثر قوتوں کا جو ہر صورت اقتدار کا ’’چکرورتی‘‘ اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں جن کی حدود شروع ہوتے ہی جمہوریت، پارلیمنٹ، سینٹ سب کے اختیارات سرنگوں ہو جاتے ہیں۔ وہاں نہ عدالت کام آتی ہے نہ سیاست۔ لاہور، کوئٹہ، کراچی، پشاور اور اسلام آباد کا سارا جمہوری غرور اور عوامی طاقت کا نشہ شاہراہ دستور کی دوسری طرف کی فٹ پاتھ شروع ہوتے ہی ہرن ہو جاتا ہے، اتر جاتا ہے اور تمام اداروں کے پائوں اس زمین پر جلتے ہیں۔ یہ ہے ہماری طاقتور جمہوریت، پارلیمنٹ اور عدلیہ کی حدود۔ کوئی فرشتہ بھی اس سے آگے نہیں جا سکتا جائے تو اس کے پر جل جاتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) ان حالات میں کیا کرتی ہے۔ اس کے بیانیے میں کس حد تک نرمی آتی ہے جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔ مگر اس بات کی گارنٹی کون دے کہ نرم بیانیہ قابل قبول ہو گا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ چودھری نثار اور میاں شہباز شریف کی جوڑی بااثر حلقوں کے نزدیک قابل قبول ہے۔ مگر اس وقت کی موجودہ صورتحال سے پتہ چلتا ہے کہ بااثر حلقے بھی اس وقت سیاسی انتشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے من مرضی پر اتر آئے ہیں۔ ویسے بھی جب گھر میں فساد ہو تو باہر والوں کو مداخلت میں آسانی رہتی ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ تو ایسی باتوں سے بھری پڑی ہے۔ جب بھی سیاست دانوں نے ایک دوسرے کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالا اس کے نتیجے میں شیروانی کے بٹن تک ٹوٹ گئے اور شیروانی اتر گئی پھر میڈل سجائے وردی اقتدار کے تنِ برہنہ پر سج گئی۔ سو ان بااثر طبقات کو اقتدار کی چاٹ لگ چکی ہے۔ بہت سے لوگ تو کہتے ہیں کہ زیادہ عرصہ اس پُرلطف کھانے کی میز سے دُور تو رہا ہی نہیں جا سکتا جس پر طرح طرح کے مرغن مختلف النواع کے لذیذ کھانے، مشروبات اور فواکہات سجے ہوں۔ اور پھر ہاضمے کا چورن بھی دستیاب ہو۔
بلوچستان اسمبلی کو بازیچہ اطفال یونہی تو نہیں بنایا گیا۔ مقتدر قوتوں نے دکھا دیا کہ وہ جب چاہیں دو اور دو چار کریں یا دو اور دو کے بائیس بنا دیں۔ اب لاکھ عمران خان اور آصف زرداری بلوچستان کی محرومی کم کرنے کا دعوی کریں۔ اگر وہ اس میں سچے تھے تو یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ ڈپٹی چیئرمین کا امیدوار بھی بلوچستان کا تھا بلوچستان کی سیاسی پارٹی کا ممبر تھا۔ یہ بلوچستان کی محبت میں بچھ بچھ جانے والے سیاستدانوں نے اسے کیوں نہ ووٹ دیا۔ پیپلزپارٹی کے سرمایہ دار مانڈوی والے کو جس کا تعلق کراچی سے ہے کو ووٹ دے کر کر کون سا حلال مال ہضم کیا گیا۔
اب عوام کو کنٹرولڈ ڈیموکریسی کی پہلی قسط مبارک ہو۔ یہ آئندہ کسی سیاسی تبدیلی کا نیا منظرنامہ بھی بن سکتا ہے۔ آنے والے عام انتخابات میں شاید اسی کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے مزید معجزات بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ اس لئے عوام کو اور خاص طور پر مسلم لیگ (ن) والوں کو نت نئے تجربات اور مراحلوں کے لئے تیار رہنا ہو گا۔ تقسیم کا عمل بھی پیش آ سکتا ہے۔ بکائو مال اور اڑنے والے طوطے، بٹیرے اور کبوتر اُڈاری مار سکتے ہیں۔ اب سارا کھیل پنجاب کے ہاتھ ہے۔ خیبر پی کے، سندھ اور بلوچستان میں بااثر طاقتوں نے صف بندی کی کیفیت پیدا کر لی ہے۔ اب تنہا کھڑا پنجاب نظر آ رہا ہے۔ یہ خاصہ خطرناک کھیل ہے جو نجانے کیوں شروع کیا گیا۔ یہ ملک قوم کے لئے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ مگر خطروں کے کھلاڑی اس سے بے نیاز ہیں۔ مفادات کے سارے مزے لوٹنے والے پنجاب پر غاصب ہونے کے الزامات لگانے والے اس نئے کھیل میں پھنس گئے ہیں۔ صرف پنجاب بچا ہے سو اب وہاں بھی نقب لگے گی۔ لوٹے اور گھوڑے تلاش کئے جائیں گے۔ ایسے میں حبیب جالب ہوتے تو اب ایک نئے انداز کے ساتھ… ’’جاگ میرے پنجاب کے پاکستان چلا‘‘ والا گیت گاتے حنیف رامے بھی نہیں جو پنجاب کا مقدمہ لڑتے۔ اب یہ مقدمہ خود پنجاب کے عوام نے لڑنا ہے۔ عوام کا مقدمہ۔ جمہوریت کا مقدمہ لڑنا ہے اور ڈٹ کر لڑنا ہے۔ اگر پسپا ہو گئے تو پھر گالیاں پہلے بھی پڑتی تھیں آئندہ بھی پڑتی رہیں گی۔
لوٹ کر کھا جانے کے حکومت کرنے کے طعنے پہلے بھی سہنا پڑتے تھے۔ اب بھی پڑیں گے۔ معلوم نہیں بااثر قوتوں کا نام باقی صوبوں نے پنجاب کیوں رکھا ہے۔

ای پیپر دی نیشن