سیاہی،جوتا سیاست۔خوفناک رجحانات کا ذمہ دار کون؟؟

شائستگی اور بدتہذیبی کے مابین فاصلے اسی طرح ماپے جاسکتے ہیں،جیسے علم اور جہالت کے درمیان ماپے جاتے ہیں۔قومیں شائستگی سے ترقی کرتی ہیں اور بدتہذیبی سے قہر مزلت کے گہرے گڑھوں میں گرتی چلی جاتی ہیں ۔رسول اکرم ؐ انسانوں کو اخلاق اور تہذیب سکھانے کے لیے آئے تھے۔انہوں نے انسانیت کو مکارم اخلاق کی تعلیم دے کر انسانوں کواخلاق اعلٰی کے معیار پر فائز کیا تھا۔اس کے باوجود کفار مکہ ایسے بدترین دشمنان اسلام نے بدتہذیبی کی بدترین مثالیں قائم کیں،جن کو تاریخ کے اوراق پر ملاحظہ کرکے آج بھی انسانیت شرم محسوس کرتی ہے۔ابوجہل نے نماز گزاری کی حالت میں رسول اکرمؐ کی پشت مبارک پر اونٹ کی اوجڑی رکھ دی تھی۔اسی طرح ابولہب کی بیوی اللہ کے رسولؐ کے راستے میں کانٹے بچھا دیتی تھی۔دوسری جانب رسول ؐاللہ کے ماننے والوں کی جانب سے ایسے کسی طرز عمل کا اظہار نہیں کیا گیا،حتٰی کہ طائف والوں کے بدترین پتھراؤ کے جواب میں بھی آپؐ نے دعاؤں کے ڈھیر لگا دیئے تھے،اسی تناظر میں اقبالؒ نے برملا کہا کہ چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی کی نبرد آزمائی کا گھناؤنا کھیل آج بھی جاری و ساری ہے۔ذرا دیکھیے کسی مسلمان کا اپنے مسلمان سیاسی مخالف کے اوپر سیاہی پھینک دینا کیسا طرز عمل ہے؟اور اسی طرح اپنے کلمہ گو مسلمان سیاسی مخالف پر جوتا اچھالنا کس قبیل کا منفی اقدام ہے؟کیا کوئی مذہب ،اخلاق یا ضابطہ اس گھناؤنے فعل کی حمایت کرسکتا ہے؟بادی النظر میں تو یہ ایک فوری منفی اقدام ہے لیکن اس کے پس منظر اور پیش منظر میں جھانکنے سے اس کے دور رس مضر نتائج اور عواقب کا اندازہ ہوجاتا ہے۔اس ضمن میں کئی سوالات اپنی جگہ بہت اہم اور اٹل ہیں۔نمبر ایک:قوم کے رجحانات و جذبات عدم تشدد سے تشدد کی راہ پر کیسے اور کیونکر گامزن ہوئے؟نمبر دو:صبر وبرداشت کے جذبات پر عدم برداشت کے احساسات کیسے غالب آگئے؟نمبر تین:کس قوت نے بحیثیت مجموعی قوم کے متوازن رجحانات کو اشتعال انگیزی کی طرف مائل کیا؟نمبر چار:حلقہء یاراں میں بریشم کی طرح نرم خو رکھنے والی قوم کو باہم دست و گریباں کس نے کیا؟:نمبر پانچ:مرکز سے دوری اور تتر بتر ہوکر اپنی مجموعی طاقت گنوانے کا سبق کس نے پڑھایا؟نمبر چھ:قوم کے افراد میں غیر اخلاقی ،غیر جمہوری اور غیر پارلیمانی اقدار کو رائج کس نے کیا؟نمبر سات:کسی بھی سیاسی جماعت کو اختلاف رائے سے اوپر اچھال کر بصورت دشنام بنانے کا رجحان کس نے دیا؟نمبر آٹھ:اوئے فلاں ،اوئے تجھے میں مونچھوں سے پکڑ کر سڑک پر گھسیٹوں گا ،جیسے طرز کلام کو سیاسی کلچر کے بطن میں کس نے جگہ دی؟نمبر نو:میں نہ مانوں کی ہٹ دھرم طرز سیاست کس نے رائج کی؟نمبر دس:سیاسی مخالفین کی ذاتی زندگیوں اور اہل خانہ پر تہمتیں لگانے کا گھناؤنا چلن کس نے عام کیا؟وغیرہ وغیرہ۔متذکرہ بالا دس سوالوں کے جواب ڈھونڈنے نکلیں تو پتہ چلتا ہے کہ اصل میں خرابی کی بنیاد سطحی مذہبی اور فرقہ ورانہ جماعتوں نے ڈالی،جنہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو کافر،مرتد اور جانے کن کن القابات سے نوازنا شروع کیا،پھران کی دیکھا داکھی سیاسی جماعتوں کے مابین اختلافات سنگین نوعیت اختیار کرکے ایک ایسی نہج پرچلے گئے ،جہاں ایمان و القان کے راستے ہی الگ ہوجاتے ہیں۔ایسے میں ملکی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے الگ الگ چلنا اور کسی بھی ایک نکتے پر اتفاق رائے نہ کرنے کا چلن اختیار کیا،جس سے ملک میں غیر جمہوری اور غیر پارلیمانی رجحانات بڑھنے لگے،سیاستدانوں کا اپنے مخالفین کو اوئے اوئے کہہ کر مخاطب کرنے کا طریقہ عام ہوا،اس ضمن میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو تقدیم حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے سیاسی بیانیے اور مخاطبے میں غیر شائستگی کو رواج دیتے ہوئے کسی مخالف کا نام بھی عزت سے نہ لینے کا گویا حلف اٹھایا،ان کی دیکھا داکھی اکثر و بیشتر متحارب سیاستدانوں اور سیاسی ورکروں نے یہی روش اپنائی اور پھر نوبت بااینجا رسید اب بدتہذیبی نے یہ رنگ اختیار کرلیا کہ سیاسی مخالفین پر سیاہی اور جوتا بھی پھینکا گیا،بداخلاقی کی اس نہج پر سیاسی مخالفین کا اندھا اور بہرہ ہوجانا کوئی اچنبے کی بات نہیں ۔کردار و عمل میں ذہنی دیوالیہ پن صاف جھلک رہا ہے اور خدانہ کرے اس منفی روش کا داخلہ ایک ایسی صورتحالات میں ہوجائے جسے خانہ جنگی کہتے ہیں۔سیاسی دریدہ ذہنی اور بدتہذیبی کے دیگر شواہد بھی جابجا بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔شیخ رشید نے اپنے دیرینہ سیاسی محسن نواز شریف کے اہل خانہ کے خلاف کئی بار نازیبا الفاظ استعمال کئے،سندھ اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر نے کہا ایوان میں کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آرہی ہیں۔یہ تمام شواہد و عواقب ہمارے ملکی سیاسی منظر نامے کے دیوالیہ پن کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ حقیقت بھی واضح کرتے ہیں کہ اس ملک کی سیاسی جماعتوں کے کارکن اور مقامی سطح کی لیڈر شپ میں ڈسپلن اور تربیت کی ازحد کمی موجود ہے۔سیاسی رہنما جب خود اپنے ورکرز کو اشتعال دلائیں تو پھر ان سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ایسے میں اخلاقی اقدار کے پروان چڑھنے کا معاملہ این خیال است و محال است و جنوں والا ہی ہوسکتا ہے۔دکھ اور صدمہ اس بات کا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو قانون اور ضابطوں کی پرواہ نہیں جبکہ ورکرز پر کوئی سرزش اس لیے بھی نہیں کہ لیڈر شپ نے سارا کام انہی سے لینا ہوتا ہے۔لٰہذا عملی سیاسی میدان میں رہنماؤں کے لیے سیاہی اور جوتے کی’’سواگت‘‘کا معاملہ اس لیے بھی سنگین ہے کہ آئندہ ان ہر دو ’’اعزازات‘‘سے کوئی اپنا یا پرایا بچتا ہوا نظر نہیں آئے گا۔ہر کوئی ان ’’تازیانوں‘‘کا ہدف ہوگا،کسی کی کوئی عزت ہوگی اور نہ کوئی باعث توقیر ٹھہر سکے گا۔پھر اس قومی سطح کی بدتہذیبی اور غیر شائستگی کے اصل ذمہ دار وہی ہونگے،جو اس کے متبدی تھے۔صیاد خود اپنے دام میں آن پھنسے تو پھر کیا ہوسکتا ہے؟سوائے پچھتاوے کے اور ایسے وقت میں مناجات بھی بے کار ہوجاتی ہیں۔اس لیے ابھی بھی وقت ہے،سیاسی ماحول کے کار پرداز اور دلدادہ اپنے طرز عمل پر غور کرکے اس سیاسی کلچر کو تبدیل کرلیں،جوان کی عدم توجہی اور کوتاہی کے سبب پودے سے تناور درخت بن چکا ہے،کل کلاں جب اس درخت کا تنا ناقابل تسخیر ہوگیا تو پھر کوئی معجزہ ہی اسے راستے سے ہٹاکر میدان صاف کرسکے گا،سیاسی کار پرداز یہ دعا کرنے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ کر اصلاح احوال کرلیں تو اچھا ہے،ورنہ وقت ہاتھ سے نکل جائے تو پچھتاوے ہی باقی رہ جاتے ہیں۔

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی

ای پیپر دی نیشن