سپیکر کا اسمبلی سے واک آﺅٹ

ارکان اسمبلی ایوان سے واک آﺅٹ کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں ایک عجیب واقعہ ہوا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے واک آﺅٹ کیا۔ سیکرٹری داخلہ اور دوسرے ارکان اسمبلی کے ایوان میں نہ ہونے کی وجہ سے واک آﺅٹ کیا۔ تو اب ارکان اسمبلی کے سوچنے کی بات ہے کہ وہ کیا کریں گے؟
ایاز صادق ایک اچھے انسان ہیں۔ انہوں نے سپیکر کے منصب کی لاج رکھی ہے۔ انہیں ایک ہی اسمبلی میں دوبارہ سپیکر منتخب کیا گیا ہے۔ معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں۔ ایاز صادق کے علاوہ میں صرف ایک سپیکر کو جانتا ہوں ان کا احترام ہمیشہ دل میں رہے گا۔ محترم معراج خالد کے لیے کسی اختلاف کے باوجود سب پاکستانیوں کے دل میں عزت تھی۔
وہ نگران وزیراعظم بنے۔ وزیراعظم معراج خالد کے ساتھ ان کے چند مرلوں والے مکان میں برادرم توفیق بٹ اور میں نے ملاقات کی بلکہ اسلام آباد جانے کے لیے ہم دونوں وزیراعظم کی گاڑی میں موجود تھے۔ ائر پورٹ تک کہیں بھی پروٹوکول نظر نہ آیا۔ مال روڈ پر ایک جگہ چیئرنگ کراس پر ٹریفک رکی ہوئی تھی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ گورنر پنجاب کہیں جا رہے ہیں۔ یہ سارا اہتمام ان کے لیے کیا گیا تھا۔ وزیراعظم کی گاڑی بھی اسی پروٹوکول میں پھنسی رہی۔
نگران وزیراعظم معراج خالد آرزﺅں سے بھری ہوئی گفتگو کرتے رہے۔ میں نے ایک دوستانہ ماحول میں ہمت کر کے کہہ دیا کہ آپ 90 روز کی حکومت کو چھوڑیں اور پاکستان کو ایک بڑا مستحکم اور شاندار ملک بنانے کے لیے کام شروع کریں۔ لوگ یہ اقدام اقتدار کو طول دینے کا سیاسی بہانہ نہیں سمجھیں گے۔ حاکم اور محکوم ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے۔ ہر شخص پاکستان کی ترقی خوشحالی اور عزت مندی کے لیے کام کرے گا۔ معراج خالد کے علاوہ کوئی اور آدمی تب نہیں تھا جس پر اعتماد کی جا سکتا۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ اب بھی ایسا کوئی آدمی نہیں ہے لوگ جس کی غیرمشروط عزت کریں اور دل و جان سے اس پر اعتماد کریں۔
معراج خالد اصولوں والے تھے۔ وہ ایک جینوئن سیاستدان تھے۔ پاکستان میں کسی کو جینوئن سیاستدان کہنا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے وزیراعظم کے لیے حلف تین مہینوں کے لیے اٹھایا ہے۔ میں اس مدت سے ایک لمحہ بھی زیادہ ایوان میں نہیں رہوں گا۔ وہ تو سب لوگوں کو میدان میں لانا چاہتے تھے۔ توفیق بٹ اور میں وزیراعظم معراج خالد کی گاڑی میں جا رہے تھے اور کوئی دوسری گاڑی ہمارے ساتھ نہ تھی۔ آج نااہل وزیراعظم ایک ملزم کی حیثیت میں سپریم کورٹ پورے پروٹوکول اور مکمل سکیورٹی کے ساتھ آتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ عدالت بھی ان کا استقبال کرے۔ اس کے برعکس جلسوں میں ان پر جوتے بھی چل جاتے ہیں۔ عمران خان پر بھی جوتا پھینکا گیا جو علیم خان کو جا لگا۔ علیم خان ایک دوستدار اور وفادار سیاستدان ہیں۔
معروف اور دلیر صحافی ضیا شاہد نے بہت بے باکی سے بات کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”جوتا باری نہ رکی تو گولہ باری ہو گی۔ اور الیکشن نہیں ہو سکیں گے۔ سیاسی جماعتیں ضابطہ اخلاق بنائیں۔ ورنہ مار کٹائی ہو گی نواز شریف کے پاس شہباز شریف کے سوا کوئی چوائس نہ تھی۔ جن سیاسی کھلونوں کو چابی دی جا رہی ہے انہیں تو ہم جانتے ہیں مگر یہ تحقیقات ضروری ہے کہ کون انہیں چاپی دے رہا ہے؟ اگلا جملہ بڑا معنی خیز اور خطرناک ہے۔ کیا ضیاءشاہد کا اشارہ فوج کی طرف ہے۔ اس طرح تو سیاستدان جمہوریت کا جنازہ نکال رہے ہیں۔
آج کل صحافی کا مقام ادیب شاعر سے زیادہ ہے۔ کسی صحافی کو ایسی بات کرنا چاہیے جو عوام اور حکام کو کچھ نہ کچھ سوچنے کی دعوت دے۔ ضیا شاہد کے لیے رول ماڈل مجید نظامی تھے۔ انہوں نے بہت عرصہ نوائے وقت میں کام کیا۔ وہ جمہوریت کا جنازہ نکالنے والوں کو سامنے لائیں۔ آخر میں معروف شاعر ناز بٹ کے چند اشعار سنئے۔
قدم قدم پہ یقیں کر رہے تھے ہم
قدم قدم پہ محبت فریب دیتی رہی
کہاں گئے مری گمنامیوں کے اچھے دن
قدم قدم مجھے شہرت فریب دیتی رہی
ہمیں تو مار دیا وضعداریوں نے ناز
ہمیں تو خوئے مروت فریب دیتی رہی
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...