صحافی کا لکھنے کو جی نہیں کرتا۔۔۔

Mar 15, 2019

احمد جمال نظامی

صفحہ قرطاس پر قلم تھاما ہاتھ لڑکھڑائے تو اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں البتہ یہ وجہ بھی اہم ہوتی کہ قلم کار یا صحافی کا لکھنے کو جی نہیں چاہ رہا۔ سچ پوچھیے تو دادرسی یا یوں کہہ لیں کہ رسائی یعنی مسائل کے حل اور اقتدار کے ایوانوں میں اصل حقائق اور عوامی حالات و واقعات پر صحافی کے قلم سے بہنے والی سیاہی پر اثرنہ ہونا صحافی کے معاشرے میں کردار کو بڑی حد تک محدود کر دیتا ہے۔ وہ صحافی جو شعبہ صحافت سے وابستہ ہوتا ہے اور شعبہ صحافت وہ کہ جسے بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا تھا۔
حیرت اس بات پر بھی نہیں ہونی چاہیے کہ آج سوشل میڈیا پر بھی صحافی اور صحافت کے بارے میں نسل نو کا گمان زیادہ اچھا نہیں رہا۔ یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری تھا لیکن تحریک انصاف بمقابلہ مسلم لیگ(ن) نے سوشل میڈیا پر ایک نئے طوفان بدتمیزی کو جنم دیا۔ محرک اس کی تحریک انصاف ٹھہری لیکن پھر ناقدین نے بھرپور مقابلہ کیا اور وزیراعظم ہاؤس سے بھی سوشل میڈیا سیل چلتے رہے۔ صحافیوں کو حقائق کے برعکس اپنے سیاسی نکتہ نظر سے جانچا گیا جسے خلاف پایا اس کی بھرپور اور بدترین کردارکشی کی گئی۔ عوام میں اس کی غیرجانبداری، تحقیق اور سالہاسال کی محنت کو ایسے روندا گیا جیسے بازار سیاست میں ایک مرتبہ شہبازشریف نے آصف علی زرداری کو زربابا اور چالیس چور کہہ کر سڑکوں پر گھسیٹنے کا اعلان کیا تھا۔
یہ معاملہ صرف ادھر تک محدود نہیں اس میں صحافیوں کی کج ادائیاں سرفہرست ہیں، ایک صحافی اپنی غیرجانبداری کو کسی سیاسی جماعت یا نام نہاد لیڈر کے لئے داؤ پر لگاتا ہے تو کسی دوسرے کو الزام کیسے دیا جا سکتا ہے۔ عوام کہتی ہے کہ ٹی وی چینلز کی بھیڑ میں ایک چینل لگائیں تو اینکر سے لے کر تجزیہ نگار تک اپنے الفاظ، گفتگو سے برملا اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ کس جماعت کی حمایت یا مخالفت کر رہے ہیں۔
اسی طرح چینل در چینل یہ سلسلہ سامنے آتا ہے۔ تعجب کی زیادہ بات اس لئے نہیں کہ اینکرز اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت کی کہاں سے آمد ہوئی ہے یہ الگ اجنبے کی بات ہے کیونکہ جو صحافی اور تجزیہ نگار بنے بیٹھے ہیں ان کو الیکٹرانک میڈیا سے پہلے کارزار صحافت میں نہیں دیکھا گیا۔ ایسی دریافت نے صحافت کو چار چاند لگانے کی بجائے اس کی بدنامی کا موجب بننا بہتر سمجھا اور پھر وہ اپنے ایسے ہی مفادات کے لئے پورے شعبے کو بدنام کر رہے ہیں۔ ان حالات میں اگر حقیقی صحافی کا قلم اٹھانے کو جی نہیں کرتا اور وہ قلم اٹھانے سے کترا رہے ہیں تو پھر اس بات کو کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن وقت اس کی گواہی دے گا کہ شعبہ صحافت اس عدم دلچسپی اور بیزاری کی صورت میں بالاخر ایک ایسے بحران کی طرف بڑھے گا کہ جب ماس کمیونی کیشن اور جرنلزم کی ڈگریاں لئے نوجوان اور لوگ صحافتی اداروں میں کچھاکھچ بھرے ہوں گے لیکن حقیقی صحافی ناپید ہوں گے۔ ان کا تجزیہ، ان کی وقائع نگاری منظر سے غائب ہو گی اور پھر ان حالات میں شعبہ صحافت سے وابستہ حقیقی صحافی جنہوں نے قلم کی حرمت کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں، کسمپرسی کی زندگی گزارتے رہے، آمریتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، ان کی جدوجہد آزادی صحافت کو بھی یہ لوگ نہ صرف فراموش کر دیں گے بلکہ چھوڑ دیں گے۔ اس پر اتنی ہی التجا کی جا سکتی ہے کہ شعبہ صحافت کے ذمہ داران ناخدا نہ بنیں اور بہتر ہو گا کہ صحافت کی آبیاری کے لئے حقیقی صحافیوں کی کونپلوں کو تراشیں، انہیں مرجھانے نہ دیں۔
اگر ایسا ہوا تو یہ صرف شعبہ صحافت کے لئے نہیں بلکہ پورے پاکستانی معاشرے اور ملک و مملکت کے لئے زہرقاتل عنصر ثابت ہو گا جس سے معاشرتی بگاڑ اور حکومتوں کی بے لگامی بے ڈھنگی ہو کر سامنے آئے گی۔ آمریت کو آمریت کہنے والے بھی نظر نہیں آئیں گے اور جمہوریت کی تعریفیں کرنے اور گن گانے والوں کو جمہوریت کی ج اور ح کا علم تک نہیں ہو گا۔ حالات ابھی اس نہج پر آن پہنچیں ہیں کہ قلم اٹھانے کو جی نہیں کرتا۔ اس سے آگے اسے بڑھنے سے روکنا ہو گا۔
صحافت ایک مقصد پیشہ ہے اس کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا، کوئی گروہ بھی اس کو اپنے زیراثر نہیں لے سکتا اگر کوئی صحافی ضمیرفروشی کرتا ہے، کسی جماعت کا ترجمان بنتا ہے تو وہ اپنے شعبے کے ساتھ بددیانتی کر رہا ہوتا ہے لیکن اگر کوئی صحافی ہی نہ ہو اور الیکٹرانک میڈیا پر ایسے صحافی نہ ہوں کی صحافیوں کی صورت میں بھرمار ہو تو پھر اس کا الزام پورے شعبے پر آنا اور دینا عوام کا حق بن جاتا ہے وہ اس پر کیا رائے زنی کرے گی، کیا تبصرہ اور تجزیہ کرے گی، اس کا فیصلہ خود سب صحافیوں کو کرنا ہے۔ حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کا کیا ہے ان کی غفلت، کرپشن اور عوام دشمنی پر تو صحافی خود سالہاسال سے پردہ کشائی کرتے چلے آ رہے ہیں، اب اپنے شعبے کو بچانے کے لئے ہر صحافی کو صحافتی اقدار کی مضبوطی، فروغ اور تبلیغ کے لئے دیدہ ور بننا ہو گا۔ تمام حلقے یاد رکھیں کہ ماضی میں بھی ہمارے معاشرے اور ملک و ملت میں سیکولر، کیمونزم یا اسلام کی ترویج و تبلیغ کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کا کردار صحافی ہی ادا کرتے رہے ہیں۔

مزیدخبریں