ضروری نہیں کہ ہر لکھا جانے والا لفظ اور جملہ پڑھنے والے کے معیار کے مطابق ہو لکھنے والا اپنی کیفیت میں جبکہ پڑھنے والا اپنی کیفیت میں ہوتا ہے آپ لوگوں کے ذہن میں کالم کی سرخی پڑھنے کے بعد طرح طرح کے خیالات اور اندازے تو ہو رہے ہوں گے کہ یہ نام کسی بد نام زمانہ بدمعاش اشتہاری ملزم کا ہو سکتا ہے یا پھر پاکستان میں کسی پنجابی فلم کا کوئی کردار ہو سکتا ہے جی نہیں آپ کے سارے انداز بالکل غلط ہیں یہ شخص نہ تو کوئی بدماش ہے نہ ہی اشتہاری ملزم ہے اور نہ ہی یہ کسی پاکستانی فلم کے ہیرو کے کردار کا نام ہے کسی حد تک اگر غور کیاجائے تو ایسے جملے اور اس طرح کے نام کے بارے میں ایسے اندازے لگائے جا سکتے ہیں کیونکہ اس وقت ہمارے معاشرہ میں نہ تو اچھی فلموں کے اچھے نام رہے ہیں اورنہ ہی اچھے اخبارات کے اچھے نام باقی رہ گئے ہیں اچھی فلموں اور اچھے اخبارات کے اچھے نام اب لگتا ہے ختم ہوگئے ہیں یہ بات درست ہے کہ اب تو ایسے نام اور ایسے جملے اکثر اخبارات میں پڑھنے اور سننے کو ملتے رہتے ہیں بہرحال یہ فیکا جوئیہ تانگے والا ایک ان پڑھ بے ہنر اور ایک عام سا شریف آدمی ہے جو میرے آبائی علاقہ بھائی پھیرو گاوں کامونگل کا رہنے والا ہے یہ شریف آدمی ایک لمبے عرصہ سے اپنی جوانی کے شروع ہونے سے پہلے سے لے کر بڑھاپے کی سیڑھیاں چڑھنے تک تقریبا 45 سال سے تانگہ چلا کر اپنے بچوں اور بوڑھے ماں باپ کی روٹی کماتا تھا راقم الحروف بھی اسکے ساتھ آج سے تقریبا 25 سال قبل سفر کرتا رہا ہے جب یہ فیکا جوئیہ اپنے تانگہ پر ہر روز صبح کو سکول کے لئے میرے علاقہ کی اہم سیاسی و سماجی شخصیت اور علاقائی زمیندار حاجی محمد رمضان صاحب کے بچوں کو لے کر جایا کرتا تھا جو اس حلقہ سے یہاں کے دو معروف سیاسی خاندانوں رانا گروپ اور سردار نکئی گروپ کے مقابلہ میں ہر عام انتخابات میں جماعت اسلامی پاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے امیدوار ہوتے ہیں اس شخصیت کو ایک اور اعزاز بھی حاصل ہے یہ بھائی پھیرو مانگا منڈی اور سرائے مغل میں قائم پریس کلب کے گزشتہ 25 سال سے ان تینوں شہروں کی پریس کلب سے وابستہ تقریبا دو سو صحافیوں کی نہ صرف سرپرستی کر رہے ہیں بلکہ ان پریس کلبوں میں ہونے والی تقریبات میں اخراجات کا بوجھ بھی اٹھاتے رہتے ہیں اب ضلع قصور کے صحافیوں کے علاوہ انہیں دیگر حلقوں نے بھی بابائے صحافت کا خطاب دے رکھا ہے گزشتہ دنوں مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کی مجلس شوریٰ کے انتخابی اجلاس میں علامہ ساجد میر کی موجودگی میں معروف مولانا ناصر مدنی جب اجلاس میں تشریف لائے تو ان سے دوستوں نے حاجی محمد رمضان کا تعارف کروانا چاھا مگر ابھی تعارف کروایا نہیں گیا تھا کہ مولانا کے منہ سے یہ الفاظ جاری ہوئے کہ انہیں کون نہیں جانتا یہ تو بابائے صحافت ہے جبکہ مولانا ناصر مدنی اور حاجی محمد رمضان صاحب کی یہ پہلی ملاقات تھی تقریب میں مولانا کے آتے ہی ایک ایسی تبدیلی رونما ہوئی کہ سب لوگ صحافیوں سمیت جو ان کے چاہنے والے تھے سب کے سب ان کی طرف متوجہ ہوگئے مولاناناصرمدنی آجکل یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر خوب شہرت حاصل کر چکے ہیں اور ان کی حکومت کے تبدیلی کے نعرے پر خوب طنزومزاح کی ویڈیو وائرل ہو چکی ہیں جنہیں لوگ بہت پسند کرتے ہیں خیر اس طرح کے واقعات اور ایسی تبدیلیاں زندگی میں آتی جاتی رہتی ہیں جس طرح وقت کی اس تیز رفتاری میں فیںکا جوئیہ تانگے والا کی زندگی میں تبدیلی آئی ہے یہ اس دور کی بات ہے جب اس پورے ملک بھر میں ٹانگے کی جگہ موٹرسائیکل آٹورکشا نے لے لی تو یہ تبدیلی اس بے ہنر اور ان پڑھ شخص پر ایک بجلی بن کر گری اور یہ شخص اس تبدیلی کا سامنا نہ کر سکا اور اسی تناظر میں اپنے دونوں کانوں سے سماعت کی قوت کھو بیٹھا اور آجکل یہ شخص بے بسی کی زندگی گزار رہا ہے اور اب پوری قوم جو گزشتہ ڈیڑھ سال سے اقتدار حاصل کرنے والوں کی جانب سے تبدیلی کی منتظر ہے جسے بس یہی کہا جا رہا ہے کہ تبدیلی آرہی ہے اب تو قوم کا ہر فرد فیکا جوئیہ تانگیالا سمیت یہی کہہ رہا ہے کہ تانگے والا خیر منگدا نہ کہ تبدیلی مانگتا اللہ خیر کرے جس طرح کی تبدیلی فیکا جوئیہ تانگے والے کی زندگی میں آئی ہے مالک کائنات قوم کو ایسی تبدیلی سے بچائے آمین۔