فیکا جوئیہ تانگے والا

Mar 15, 2020

گلزار ملک

ضروری نہیں کہ ہر لکھا جانے والا لفظ اور جملہ پڑھنے والے کے معیار کے مطابق ہو لکھنے والا اپنی کیفیت میں جبکہ پڑھنے والا اپنی کیفیت میں ہوتا ہے آپ لوگوں کے ذہن میں کالم کی سرخی پڑھنے کے بعد طرح طرح کے خیالات اور اندازے تو ہو رہے ہوں گے کہ یہ نام کسی بد نام زمانہ بدمعاش اشتہاری ملزم کا ہو سکتا ہے یا پھر پاکستان میں کسی پنجابی فلم کا کوئی کردار ہو سکتا ہے جی نہیں آپ کے سارے انداز بالکل غلط ہیں یہ شخص نہ تو کوئی بدماش ہے نہ ہی اشتہاری ملزم ہے اور نہ ہی یہ کسی پاکستانی فلم کے ہیرو کے کردار کا نام ہے کسی حد تک اگر غور کیاجائے تو ایسے جملے اور اس طرح کے نام کے بارے میں ایسے اندازے لگائے جا سکتے ہیں کیونکہ اس وقت ہمارے معاشرہ میں نہ تو اچھی فلموں کے اچھے نام رہے ہیں اورنہ ہی اچھے اخبارات کے اچھے نام باقی رہ گئے ہیں اچھی فلموں اور اچھے اخبارات کے اچھے نام اب لگتا ہے ختم ہوگئے ہیں یہ بات درست ہے کہ اب تو ایسے نام اور ایسے جملے اکثر اخبارات میں پڑھنے اور سننے کو ملتے رہتے ہیں بہرحال یہ فیکا جوئیہ تانگے والا ایک ان پڑھ بے ہنر اور ایک عام سا شریف آدمی ہے جو میرے آبائی علاقہ بھائی پھیرو گاوں کامونگل کا رہنے والا ہے یہ شریف آدمی ایک لمبے عرصہ سے اپنی جوانی کے شروع ہونے سے پہلے سے لے کر بڑھاپے کی سیڑھیاں چڑھنے تک تقریبا 45 سال سے تانگہ چلا کر اپنے بچوں اور بوڑھے ماں باپ کی روٹی کماتا تھا راقم الحروف بھی اسکے ساتھ آج سے تقریبا 25 سال قبل سفر کرتا رہا ہے جب یہ فیکا جوئیہ اپنے تانگہ پر ہر روز صبح کو سکول کے لئے میرے علاقہ کی اہم سیاسی و سماجی شخصیت اور علاقائی زمیندار حاجی محمد رمضان صاحب کے بچوں کو لے کر جایا کرتا تھا جو اس حلقہ سے یہاں کے دو معروف سیاسی خاندانوں رانا گروپ اور سردار نکئی گروپ کے مقابلہ میں ہر عام انتخابات میں جماعت اسلامی پاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے امیدوار ہوتے ہیں اس شخصیت کو ایک اور اعزاز بھی حاصل ہے یہ بھائی پھیرو مانگا منڈی اور سرائے مغل میں قائم پریس کلب کے گزشتہ 25 سال سے ان تینوں شہروں کی پریس کلب سے وابستہ تقریبا دو سو صحافیوں کی نہ صرف سرپرستی کر رہے ہیں بلکہ ان پریس کلبوں میں ہونے والی تقریبات میں اخراجات کا بوجھ بھی اٹھاتے رہتے ہیں اب ضلع قصور کے صحافیوں کے علاوہ انہیں دیگر حلقوں نے بھی بابائے صحافت کا خطاب دے رکھا ہے گزشتہ دنوں مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کی مجلس شوریٰ کے انتخابی اجلاس میں علامہ ساجد میر کی موجودگی میں معروف مولانا ناصر مدنی جب اجلاس میں تشریف لائے تو ان سے دوستوں نے حاجی محمد رمضان کا تعارف کروانا چاھا مگر ابھی تعارف کروایا نہیں گیا تھا کہ مولانا کے منہ سے یہ الفاظ جاری ہوئے کہ انہیں کون نہیں جانتا یہ تو بابائے صحافت ہے جبکہ مولانا ناصر مدنی اور حاجی محمد رمضان صاحب کی یہ پہلی ملاقات تھی تقریب میں مولانا کے آتے ہی ایک ایسی تبدیلی رونما ہوئی کہ سب لوگ صحافیوں سمیت جو ان کے چاہنے والے تھے سب کے سب ان کی طرف متوجہ ہوگئے مولاناناصرمدنی آجکل یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر خوب شہرت حاصل کر چکے ہیں اور ان کی حکومت کے تبدیلی کے نعرے پر خوب طنزومزاح کی ویڈیو وائرل ہو چکی ہیں جنہیں لوگ بہت پسند کرتے ہیں خیر اس طرح کے واقعات اور ایسی تبدیلیاں زندگی میں آتی جاتی رہتی ہیں جس طرح وقت کی اس تیز رفتاری میں فیںکا جوئیہ تانگے والا کی زندگی میں تبدیلی آئی ہے یہ اس دور کی بات ہے جب اس پورے ملک بھر میں ٹانگے کی جگہ موٹرسائیکل آٹورکشا نے لے لی تو یہ تبدیلی اس بے ہنر اور ان پڑھ شخص پر ایک بجلی بن کر گری اور یہ شخص اس تبدیلی کا سامنا نہ کر سکا اور اسی تناظر میں اپنے دونوں کانوں سے سماعت کی قوت کھو بیٹھا اور آجکل یہ شخص بے بسی کی زندگی گزار رہا ہے اور اب پوری قوم جو گزشتہ ڈیڑھ سال سے اقتدار حاصل کرنے والوں کی جانب سے تبدیلی کی منتظر ہے جسے بس یہی کہا جا رہا ہے کہ تبدیلی آرہی ہے اب تو قوم کا ہر فرد فیکا جوئیہ تانگیالا سمیت یہی کہہ رہا ہے کہ تانگے والا خیر منگدا نہ کہ تبدیلی مانگتا اللہ خیر کرے جس طرح کی تبدیلی فیکا جوئیہ تانگے والے کی زندگی میں آئی ہے مالک کائنات قوم کو ایسی تبدیلی سے بچائے آمین۔

مزیدخبریں