نہ مدعی نہ منصف حساب باک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
بند گڑوں کو کھولنے والے اور کنوؤں کی صفائی کرنے والے جب لنگوٹ باندھ کر گہرائی میں اترتے ہیں، تو انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ ان کی یہ ’’دلیری‘‘ ان کی موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اور اکثر اوقات یہ سانحہ ہو بھی جاتا ہے۔ کوئی مہینہ بھر پہلے کئی گھروں کے کفیل دو نوجوانوں سینٹری ورکر کراچی کے شاہ لطیف ٹاؤن میں بند سیوریج کھولتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ان غریبوں کی تو یہ مجبوری ہے، کیونکہ ان کا رزق اسی کام سے بندھا ہے۔ احتیاطی گیجٹس پراصرار کریں، تو نوکری چلی جاتی ہے۔
یہ مسئلہ صرف سندھ کا نہیں، پورے پاکستان کا ہے۔ چند ٹکوں کے احتیاطی گیجٹس فراہم نہ کر کے اس بے بس مخلوق کا قتل عام ہمیشہ ہو رہا ہے۔ کیا کوئی عدالت یہ حکم جاری نہیں کر سکتی کہ آج کے بعد اگر کوئی سینٹری ورکر حفاظتی گیجٹس کی عدم دستیابی کے سبب ہلاک ہوا، تو متعلقہ وزیر پہ قتل کا مقدمہ درج ہو گا؟