ارشادحسن خاں کا شمار پاکستان کی ایلیٹ کلا س میں ہوتا ہے ، وہ چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ،بعد ازاں چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر کام کرتے ہوئے انہوں نے قومی الیکشن بھی کروائے۔وہ قائمقام صدرپاکستان بھی رہے، انہوں نے وفاقی سیکرٹری قانون وپارلیمانی امور کی حیثیت سے فرائض منصبی بھی نبھائے ۔یہ بات شاید ہی کسی کو معلوم ہوتی اگروہ اپنی سوانح عمری میں اپنی داستان حیات کا تذکرہ نہ کرتے کہ انہوں نے یتیمی بھی دیکھی ،غربت کا شکار بھی رہے اور قدم قدم پر مشکلات کا سامنا بھی کیا۔لیکن کہیں بھی ان کے پاؤں نہیں ڈگمگائے ، اپنی مضبوط قوت ارادی اور اللہ تعالی کی تائید و حمایت کی بدولت وہ اپنے ترقی کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو پاؤں کی ٹھوکرسے دور کرکے آگے بڑھتے رہے ،حتی کہ عدلیہ کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ہوئے۔میں نے ان کی کتاب "ارشادنامہ"کا چیدہ چیدہ مطالعہ کیا ، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انسان میں آگے بڑھنے کا جذبہ ہو اور قدرت بھی مہربان ہو تو رکاوٹیں خود بخود ہٹتی جاتی ہے ۔7جنوری 1937ء کو شملہ میں پیدا ہونے والے ارشاد حسن خان، والدین کی وفات کے بعد قیام پاکستان کے وقت اپنے بھائیوں کے ہمراہ پاکستان پہنچے اور لاہورمیں فرنیچر کی دکان پر ایک معاون کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا ۔ساتھ ساتھ گورنمنٹ سنٹرل ماڈل سکول لاہور میں تعلیم حاصل کرتے رہے،میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور کا رخ کیا اور ’’اپنی شرائط‘‘ پر وہاں بھی داخلہ لے لیا۔یہ بات واقعی قابل ذکر ہے کہ اردو میڈیم سکول کا پڑھا ہوا بچہ کس طرح گورنمنٹ کالج کے انگلش میڈیم سسٹم میں نہ صرف ایڈجسٹ ہوا بلکہ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں غیرمعمولی دلچسپی کی بدولت توصیفی خط لے کراس نے سب کو حیران کردیا ۔گورنمنٹ کالج کے پرنسپل، پروفیسرسراج الدین کے یہ الفاظ قابل ذکر ہیں کہ " ارشاد حسن خان نے طلبہ اور اساتذہ دونوں کی نگاہ میں ۔
عزت حاصل کی ۔یہ ہوش مند،سنجیدہ،اور تعاون کرنے والے ہیں ۔یہ سرتاپا صاحب وقار،نہایت شریف النفس انسان ہیں ۔میں ان کا مستقبل روشن دیکھتا ہوں جن میں ہمت بھی ہے اور قابلیت بھی ۔ " میں سمجھتا ہوں کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر پہنچ کر انہوں نے گورنمنٹ کالج کے پرنسپل کے شاندار الفاظ کا بھرم رکھا۔بہرکیف گریجوایشن کے بعد ملازمت کی خواہش پیدا ہوئی ۔ تواکاؤنٹنٹ جنرل کے آفس میں اکاؤنٹ اسسٹنٹ کی نوکری حاصل کرنے کے لیے پرنسپل کا توصیفی خط دیا تو اکاؤنٹنٹ جنرل کے ان الفاظ نے آپ کو بھونچکا کے رکھ دیا کہ اس توصیفی خط کی بنیاد پر آپ کسی ملازمت کے حقدار نہیں ۔جب آپ مایوس ہوکر واپس لوٹ رہے تھے تو انہوں نے آپ کو بلایا اور کہا " ینگ مین۔ میں تمہارے ماتھے پر چمکتاہوا تاج دیکھ رہا ہوں ۔تم کلرک بننے کے لیے نہیں بلکہ اعلی مقام حاصل کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہو۔میں کلرکی دے کر تمہارا کریئر خراب نہیں کرنا چاہتا"۔گرینڈلز بنک سے بھی انکار ہواتو اٹھتے ہوئے قدم آپ کو فیروزسنز کی دہلیز پرلے آئے جہاں آپ کی ملاقات فیروز سنز کے ڈائریکٹر عبدالحمید خاں سے ہوئی ،جنہوں نے آپ کی قائدانہ صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے اپنے ہاں ریسپشنسٹ کی ملازمت پررکھ لیا ۔اس ملازمت نے آپ کے لیے نہ صرف وکالت کے شعبے میں قدم جمانے کے راستے ہموار کیے بلکہ آپ فیروزسنز مالکان کی فیملی کے باقاعدہ ممبر بن گئے۔یہاں آپ کی زندگی میں تازہ ہوا کا جھونکا اس وقت آیا جب ایک ملاقات کے دوران آپ کے چچا نے شادی کرنے کے لیے کہا۔لیکن آپ نے کہا میں آگے پڑھنا چاہتا ہوں۔بہرحال یہ طے ہوا کہ پہلے وکالت کا امتحان پاس کرلوں ،پھر شادی کروں گا ۔لاء کالج پنجاب یونیورسٹی میں آسانی سے داخلہ مل گیا ۔جب آپ نے فیروزسنز کی ملازمت سے استعفی دینا چاہا تو مالکان نے استعفی قبول کرنے کی بجائے آپکی تنخواہ ڈیڑھ سو سے بڑھا کرساڑھے چار سو روپے کردی اور صبح کے وقت کالج جانے کی اجازت بھی دے دی۔اس طرح لاء کالج اور فیروز سنز دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہے ۔پھروہ لمحہ بھی آیا جب ایل ایل بی کرکے فارغ ہوئے ۔آپ نے چچا سے کہا میں امریکہ یا برطانیہ قانون کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانا چاہتا ہوںتو انہوں نے پھر شادی کی پیشکش کردی ،جسے آپ نے قبول بھی کرلیا۔یہاں سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ منگنی کے بعد آپ نے سائیکل پرسوار ہوکر روزانہ سسرال جانا اور وہاں شام کا کھانا شروع کردیا ،آپ کے بھائیوں نے بھی روکا کہ ہمارے معاشرے میں شادی سے پہلے سسرال نہیں جایاجاتالیکن آپ اپنی دھن کے پکے نکلے اور سسرال والے بھی آپ کے کمال مہربان لوگ تھے جو ہرروزمہمان نوازی کے لیے تیاررہتے۔ جب ہائی کورٹ میں وکیل کی حیثیت سے انرولمنٹ ملی تو 11اگست 1961ء کو آپ رشتہ ازدوج سے بھی منسلک ہوگئے۔بہرکیف آپ کی داستان حیات انتہائی دلچسپ اور قابل تقلید ہے کہ ایک یتیم اور سائیکل سوار بچہ کس طرح بیساکھیوں کے بغیر پاکستان کا چیف جسٹس بنا ،یہ تمام واقعات مصنف نے بڑے دلپذیر انداز میں کتاب بیان کیے ہیں جو آج کل کی نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ ہیں ۔
نہ تو تمام لوگ ایک جیسے ہوتے ہیں اور نہ ان کی قسمت ہی ایک جیسی ہوتی ہے ۔کچھ اپنے منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں اور کچھ لوگوں کو ہر قدم پر مشکلات اور پریشانیاں گھیرلیتی ہیں ،لیکن وہ لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں جو مسائل سے گھبرانے اور غربت و بے وسائلی کی دلدل سے نکلنے کے لیے اپنی مضبوط قوت ارادی کو بروئے کار لاتے ہیں ،اور منزل بہ منزل آگے بڑھتے جاتے ہیں ۔ایسے ہی لوگوں میں ارشاد حسن خاں بھی شامل ہیں جنہوں نے والدین کی وفات اور بے وسائلی کے باوجود حوصلہ نہیں ہارا ۔اور پاؤں کی ٹھوکر سے اپنے روشن مستقبل کے درمیان حائل رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے عدالت عظمی کے سب سے بڑے عہدے "چیف جسٹس پاکستان" تک جا پہنچے ۔
(جاری)