سید یوسف رضا گیلانی کی بطور سینیٹر جیت اوربطور چیئرمین سینیٹ شکست کے بعد بے یقینی کی کیفیت بہت حد تک چھٹ چکی ہے مگر یار لوگ ابھی تک بے پر کی اڑانے پر مصرہیں۔یہ جانے بوجھے بغیر کہ بے یقینی ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا چکی ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو پہلے سے جاں بلب معیشت ناقابل تلافی حد تک گراوٹ کا شکار ہوگی۔وہ تمام دوست جو پانامہ کیس کی سماعت کے دوران میاں نوازشریف کی اسمبلی فلور پر تقریر کو عدالتی چھان بین سے مبرا قرار دیتے تھے،اب پورے انتخابی عمل اور ووٹوں کے مسترد کیے جانے کی رولنگ کو عدالتی عمل کی چھلنی سے گزارنے کے لئے بضد ہیں۔بارہ مارچ کوسینیٹ کی پریس گیلری سے تمام عمل کے مشاہدے کے دوران وہاں موجود دوست لگدا تے نئیںپرشاید کی تصویربنے کسی اپ سیٹ کے لئے پرامید تھے ۔تاہم میری سوچی سمجھی رائے میں اس کے امکانات بہت کم تھے کیونکہ سید یوسف رضا گیلانی کی جیت کی صورت میں نہ صرف حکومتی صفوں میں کھلبلی مچ جاتی بلکہ عمران خان جیسا وزیراعظم جو سینیٹ کی ایک نشست کے نتیجے سے مشتعل ہوکر اعتماد کے ووٹ کی غیرمتوقع راہ چن سکتا ہے وہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں ناکامی کی صورت میں قبل ازوقت نئے الیکشن کااعلان کرسکتا تھا اور اس فیصلے کے لئے شاید مولانا فضل الرحمن کے علاوہ کوئی ذہنی طور پر تیار نہیں ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی اور آصف علی زرداری کو یہ بخوبی اندازہ ہے کہ فوری نئے انتخاب کی صورت میں ان کی جماعت پنجاب اور کے پی کے میں اتنی نشستیں نہیں نکال سکتی کہ وہ مرکز میں حکومت سازی کرسکیں۔دوسری جانب کسی حد یہ درست ہے کہ ایسی کسی صورت میں مسلم لیگ (ن) کو پنجاب اور ہزارہ میں فائدہ ہوسکتا ہے لیکن اگر ان فوری انتخابات میں میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نوازحصہ لینے کی اہل نہیں تو انہیں بھی ایسے انتخابات سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔رہے پاکستان تحریک انصاف کے لوگ تو وہ موجودہ حالات سے جتنے بھی نالاں ہوں وہ حکومت چھوڑنے کے متحمل نہیں ہوسکتے، یہاں تو کوئی پوسٹ آفس میں چپڑاسی کی نوکری نہیں چھوڑتا تو رکن اسمبلی کی مراعات یافتہ نوکری چھوڑنے کی باتیں تو کی جاسکتیں ہیں لیکن اصل میں نشست سے دستبردارہوکر بطور امیدوار نئے ووٹ مانگنے کا تصور ہی ہماری سیاسی اشرافیہ کی نیندیں حرام کرنے کے لئے کافی ہے۔رہی اسٹیبلشمنٹ تو ان کی ترجیحات واضح ہیں اور ان حالات میں وہ نئے الیکشن کا معاشی بوجھ پاکستان کی معیشت پر ڈالنے کا ارادہ رکھتی ہوتو بھی انہیں ایک سے زیادہ بار سوچنا پڑے گا۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے زعما سید یوسف رضا گیلانی کی جیت پر بہت خوش تھے اور ضمیر کی آواز کے بھاشن بانٹتے پھررہے تھے یکایک ایک نئے موقف کے ساتھ سامنے آئے ہیں ۔سچی بات ہے پاکستان کی سیاست کا اخلاقیات اور اصولوں سے کچھ لینا دینا نہیں یہ سیدھا سیدھا بزنس ہے جس میں عوامی جذبات کی کرنسی استعمال کرنے کا بھونڈا ناٹک کیا جاتا ہے۔ہماری سیاست کا مطیح نظر عوامی خدمت اور سماج سدھار کبھی بھی نہیں رہا بلکہ سب کے سب اقتدار کے حصول کے لئے ہمیں الفاظ کے طوطا مینا بناکر بہلانے پھسلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے جب بھی یہ روشن ضمیر لوگ سیاست میں اصولی یا اخلاقی برتری کی بات کرتے ہیں میری بے اختیار ہنسی نکل جاتی ہے۔سینیٹ کے ان انتخابات میں سابق وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضاگیلانی کے فرزندارجمند جب ووٹرز کو ووٹ ضائع کرنے کے متعلق علم ودانش کے موتی لٹارہے تھے تو لگتا یہی ہے کہ انہوں نے مومن خان مومن کا یہ شعر نہیں سن رکھا تھا ؎
الجھا ہے پاوٗںیارکا زلف درازمیں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
چیئرمین سینیٹ کے لئے ووٹنگ کے بعد جب گنتی شروع ہوئی اور ایک کے بعد ایک ووٹ مسترد شدہ ووٹوں کی ٹوکری میں جانا شروع ہوئے تو میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیلنی شروع ہوئی اور جب مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد پانچ ہوئی تو میری باچھیں پوری طرح کھل چکی تھیں۔خیر بہت سے دوستوں کا خیال ہے کہ اب کپتان کیچ چھوٹ جانے کے بعد ایک نئی زندگی ملنے والے بیٹسمین کی طرح اچھی اور جارحانہ اننگزکھیلے گا۔کابینہ میں بہت سی تبدیلیاں ہونگیں اور پنجاب میں بھی کوئی ایسا چمتکار دکھائیں گے کہ آٹھ دس ماہ میں اگر نئے انتخابی اکھاڑے میں اترنا پڑے تو عوام کے دکھوں میں خاطر خواہ کمی ہوچکی ہوگی لیکن مجھے اس بارے کوئی خوش فہمی نہیں کچھ کام ایسے ضرور ہیں جو عمران خان نے بہت اچھے کیے ہیں لیکن بدانتظامی کی کالی گھٹا اتنی گہری ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔صادق سنجرانی صاحب دوسری مرتبہ چیرمین سینیٹ منتخب ہوچکے اور اپوزیشن کے پاس عوام کو دکھانے کے لئے عدالت میں جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں لیکن انہیں بھی اس بات کا علم ہے کہ اب حقائق میں کوئی جوہری تبدیلی لانا ممکن نہیں مگر وہ خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہولانگ مارچ کی تاریخ مقرر کی جاچکی ہے لیکن کرونا کی تیسری لہر نے زور پکڑنا شروع کردیا ہے اور مجھے قوی امید ہے کہ مارچ کے اندر اس مارچ سے کرونا نامی انتظامیہ بخوبی نمٹ لے گی۔سینیٹ کے الیکشن ہوں یا عام انتخابات، ان کے ساتھ پاکستانی عوام کا کوئی لینا دینا نہیں ،سانپ اور سیڑھی کے اس کھیل میں جیت ہار کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ ہمیشہ ہم کھیلے بغیر کیسے ہار اور کوئی کھیلے بغیر جیت جاتا ہے لگتا ہے تاش چھوڑکر اب لڈو پر توجہ دینا پڑے گی!