پاکستان اور چین کی دوستی کو 70 سال سے زائد عرصہ گزر گیا ہے۔ یہ دوستی غیر متزلزل، بے مثال اور مضبوط تر ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے دنیا کے بہت سے ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔ حالات، واقعات اور مفادات کے پیشِ نظر کبھی کبھی ان ممالک کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھائو بھی آ جاتا ہے لیکن چین وہ واحد ایسا ملک ہے جس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہر طرح کے مفادات سے بالاتر اور غیر متزلزل رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تعلقات میں گرم جوشی اور مضبوطی میں اضافہ ہوا ہے۔ ہر موقع پر یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے اسی لیے مشہور ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی ہمالیہ سے بلند، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے۔ دونوں ملک ایک دوسرے کے مفادات کو عزیز رکھتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ دوستی حکومتوں کے تابع نہیں ہے حکومت کوئی بھی ہو دونوں ملکوں کی دوستی پر فرق نہیں پڑتا۔ ان کے دوست اور دشمن سانجھے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ یہ دوستی بہت سے کھلے دشمنوں اور دوست نما دشمنوں کو بہت کھٹکتی ہے اور وہ اس دوستی کے خلاف پروپیگنڈا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوستوں کے انتخاب کے معاملے میں پاکستانی قیادتوں سے کئی غلطیاں ہوئی ہیں یا یوں کہہ لیں کہ کچھ ممالک نے پاکستان کو دوستی کے نام پر بہت دھوکے دیئے ہیں۔ یعنی لگائیں کہیں اور نبھائیں کہیں۔ جس سے پاکستان کو بہت نقصان پہنچا۔ لیکن شکر ہے کہ اب پاکستان کچھ عرصے سے ان دوست نما دشمنوں کو پہچان گیا ہے اور اب واضح اور دو ٹوک خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا اس حوالے سے نہایت اہم اور مثبت کردار ہے۔ یوں کہنا بجا ہوگا کہ پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات حکومتی یا سیاسی سطح کے نہیں بلکہ قومی سطح کے ہیں۔ جب بھی کسی
ملک نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو چین بڑے بھائی کی طرح پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور برملا اعلان کیا کہ پاکستان کے مفادات یاسر حدات پر حملہ چین پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ کشمیر کے مسئلے پر بھی چین نے ہمیشہ پاکستان کے اصولی موقف کی حمایت کی ہے۔ کووڈ19 کی وباء کے دوران جس طرح چین نے پاکستان کا ساتھ دیا اور مفت ویکسین فراہم کی وہ قابل تحسین ہے۔ اسی طرح پاکستان نے بھی علاقائی یا عالمی سطح پرہمیشہ چین کا ساتھ دیا۔
پاک چائنا اکنامک کوریڈور ایسا منصوبہ ہے جس سے خطے کی تقدیر بدل جائے گی اور بہت سے ممالک اس سے استفادہ کریں گے لیکن یہ عظیم منصوبہ بہت سے ممالک کی نظروں میں کھٹکتا ہے اور اس کے خلاف بھرپور پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے لیکن پاکستان تمام تر مخالفت اور مشکلات کے باوجود سی پیک کی تکمیل کے لیے پُرعزم ہے۔ اور اس نے کسی بھی ملک کا دبائو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کے فروغ اور سی پیک کے خلاف پروپیگنڈے کے توڑ میں نوائے وقت گروپ کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ نوائے وقت جس نے ہمیشہ قومی مفادات کو عزیز رکھا پاک چین تعلقات کو بھی بڑی اہمیت دیتا ہے کیونکہ یہ سمجھتا ہے کہ چین پاکستان کا سچا اور کھرا دوست ہے۔ اگرچہ دنیا کے تمام ممالک دوسرے ملکوں سے تعلقات اور خارجہ پالیسی میں اپنے ملکی مفادات کو عزیز رکھتے ہیں لیکن اصل دوست وہی ہوتے ہیں جو صرف اپنے ہی نہیں دوست ممالک کے مفادات اور خودداری کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔
آبروئے صحافت مجید نظامی بھی پاکستان چین دوستی کے حامی تھے۔ مجھے یاد ہے چند برس قبل چین سے ایک اعلیٰ سطح کا وفد آیا تھا جس میں وہاں کے کئی صحافی بھی شامل تھے تو انہوں نے حمید نظامی ہال میں ان کے ساتھ خصوصی نشست کا اہتمام کیا تھا جس میں نوائے وقت کی تمام پبلی کیشنز کے ایڈیٹرز کو بھی شریک کیا تھا اور باہمی تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ اس موقع پر مجید نظامی نے چینی وفد کو مشورہ دیا تھا کہ اگر وہ دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسیع کرنا چاہتے ہیں تو انہیں انگریزی اور دیگر زبانیں بھی سیکھنا ہوں گی۔ جناب مجید نظامی کے بعد محترمہ رمیزہ نظامی کی قیادت میں نوائے وقت گروپ پاک چین دوستی کے حوالے سے پہلے سے بھی زیادہ موثر کردار ادا کر رہا ہے۔ سی پیک کے خلاف مہم کا مدلل اور بھرپور جواب دے رہا ہے۔ لیفٹیننٹ کرنل(ر) سید احمد ندیم قادری نہایت عرق ریزی سے تحقیق کرکے سی پیک کے حوالے سے سلسلہ وار مضامین لکھ رہے ہیں۔ راقم نے 2011ء میں ماہنامہ ’’پھول‘‘ کا خصوصی شمارہ’’پاک چین دوستی نمبر‘‘ شائع کیا تھا جس میں دونوں ممالک کے ادیبوں کی تحریریں شامل کی گئی تھیں اس سے پاکستان کی نئی نسل کو چین کے بارے مزید جاننے کا موقع ملا تھا۔ اکتوبر2020ء میں چین کے قومی دن کے حوالے سے نوائے وقت، دی نیشن، ہفت روزہ، فیملی میگزین، ہفت روزہ ندائے ملت اور ماہنامہ پھول میں خصوصی مضامین شائع کئے گئے تھے۔ محترمہ رمیزہ نظامی نے پاکستان میں چین کے سفیر مسٹر نونگ رونگ سے ملاقات پر پاک چین میڈیا ریلشن شپ کے حوالے سے مفید تجاویز پیش کیں جنہیں چینی سفیر نے پسند کیا اور ان پر عمل درآمد کی یقین دہانی کروائی۔
پاکستان اور چین کی دوستی میں مزید اضافے کے لیے ضروری ہے کہ عوامی سطح پر بھی دونوں ممالک کے درمیان رابطوں کو مضبوط بنایا جائے۔ صحافیوں، ادیبوں، شاعروں، ثقافتی اور سماجی نمائندوں کے وفود کے دوروں کا اہتمام کیا جائے۔ پاکستان میں چینی زبان اور چین میں اردو زبان کی تدریس کے زیادہ سے زیادہ مراکز قائم کیے جائیں۔ چینی حکام پاکستان میں شاید سیکورٹی مسائل کی وجہ سے عوامی رابطوں سے گریزاں یا محتاط ہیں۔ اس کے ازالے کے لیے ضروری ہے کہ سفارت خانہ اور قونصلیٹ ثقافتی تقاریب کے انعقاد پر توجہ دے۔ صحافتی سطح پر نیوز رپورٹس اور تجزیاتی مضامین کا تبادلہ کیا جائے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے ملک کے افسانوں، ناولوں اور شاعری کے تراجم شائع کریں۔ تاکہ دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کے ادب، ادیبوں، ثقافت اور تہذیب کو بہتر انداز سے سمجھ سکیں۔ پائیدار دوستی کے لیے ضروری ہے دونوں ملکوں کے بچوں کے ادب کو اُردو اور چینی زبان میں تراجم کروا کے بچوں کے رسائل میں یا کتابوں کی صورت میں شائع کروا کر تعلیمی اداروں اور لائبریریوں میں فراہم کیا جائے جو بچے یہ لٹریچر پڑھیں گے وہ مستقبل میں پاک چین دوستی کو مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوں گے۔ اسی طرح فلموں اور ڈراموں کی ڈبنگ کرکے ان کا تبادلہ کیا جائے۔ تاکہ ثقافتی تعلقات فروغ پائیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان باہمی تعاون اور معاشی ترقی و خوشحالی کے وسیع امکانات موجود ہیں دیکھنا یہ ہے دونوں ممالک ان سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اُمید ہے قدرت نے جو مواقع فراہم کیے ہیں وہ اسے ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ اور دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ اسی طرح غیر متزلزل، پائیدار اور مثالی رہیں گے۔
پاک چین دوستی زندہ باد