چیئر مین سینیٹ اور ڈپٹی چیئر مین کے چنائو کے ساتھ انتخابی جمہوریت کا ایک بڑا مرحلہ طے ہو گیا ہے،گو اس میں کچھ مشکل مقام ضرور آئے مگر قوم کی اجتماعی دانش رنگ لائی اور پاکستان نے دنیا کو دکھا دیا کہ یہاں سسٹم کو کس حد دتک بالا دستی حاصل ہے۔
جمہوری عمل کو جھٹکے لگنا اب ایک معمول بن گیا ہے۔ امریکہ میں بھی سابق صدر ٹرمپ کے حامیوںنے نئے صدر کی تقریب حلف برداری پر ہلہ بولا۔ بھارت میں کسانوںنے کئی ماہ سے دہلی کا گھیرائو کر رکھا ہے اور برما میں فوج مارشل لا ء نافذ کر چکی ہے جس کے خلاف عوامی مظاہرے بھی ہو رہے ہیں۔پچھلے چند عشرووں میں امریکی اور نیٹو افواج نے یمن،مصر، لیبیا، شام،عراق،سوڈان اور افغانستان کے سسٹم کو تہہ و بالاکر کے رکھ دیا،پاکستان جو ایک ایٹمی اور مزائلوں سے لیس طاقت ہے اسے انتشار کا شکار کرنے کا شوق ایک خلقت کوچرایا ہے۔پاکستان کی دفاعی طاقت کسی کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور جب سے سی پیک کی شروعات ہوئی ہیں اور ون بیلٹ ون روڈ کا انشی ایٹو چل نکلا ہے،تب سے ایک سرد جنگ نے پاکستان کے ارد گرد کے خطے کو نشانہ بنا رکھا ہے۔
اس عالم میں پاکستان میں جمہوری پیش رفت کسی معجزے سے کم نہیں۔اور وہ بھی ان حالات میں کہ ملک کی ساری اپوزیشن پارٹیاں متحد ہو کر حکومت کی راہ میں روڑے اٹکانے میں مصروف ہیں،انہیں یہ احساس تک نہیں کہ ملک میں اگر مہنگائی اور بے روز گاری ہے تو اس کی و جہ کرونا کی مہلک وبا ء ہے جس نے بڑی طاقتوں کی معیشت کو بھی ہلا ڈالا ہے۔ پاکستان تو معاشی میدان میں بھی سب سے بہتر جا رہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے پہلے دن سے کہا ہے کہ وہ غریب کو کرونا کے بجائے بھوک سے نہیںمرنے دیں گے، انہوںنے کنسٹرکشن کا شعبہ کھلا رکھا،چھوٹی دکا نیں کھلی رکھیں اور زرعی سیکٹر کو چھیڑا تک نہیں جس کی وجہ سے دیہاڑی دار اور مزدور طبقہ فاقوں کا شکار نہیں ہوا جبکہ ہمارے ہمسائے بھارت میں ایسا کرفیو لگا کہ لاکھوں مزدور ہزراوں میل پیدل چل کر اپنے گھروں میں پہنچنے پر مجبور ہو گئے اور ان میں سے کوئی بھوک سے دم توڑ گیا، کوئی کرونا سے ہلاک ہوا اور کوئی پولیس کی لاٹھی اور گولی سے۔ پاکستان میں یہ افراتفری دیکھنے میں نہیں آئی اور دنیا نے پاکستان کے ماڈل کی پیروی شروع کر دی مگر ہماری اپوزیشن جو ہر حالت میں حکومت کا دھڑن تختہ کرنے پر تلی ہوئی تھی اس نے شہر شہر جلسے کئے اور کروناکو پھیلانے میں کوئی کسرنہ چھوڑی۔ ملک میں اس وقت کروناکی نئی لہر اپوزیشن کی ضدی سیاست کا نتیجہ ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن تمام ڈینگیں ہانکنے کے باوجود حکومت کا بال تک بیکا نہ کر سکی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض اپوزیشن لیڈروںنے آرمی چیف اورآئی ایس آئی چیف کے خلاف طعنہ زنی کی اور اداروں کو سیاست میں گھسیٹا گیا مگر فوج نے حوصلے اور صبر سے کام لیا۔ فوج نے بہتیرا کہا کہ کل کسی اور پارٹی کی حکومت ہو گی توفوج اس کے احکامات کی بھی پابند ہو گی،آج اسے منتخب حکومت کے ساتھ کھڑے رہ کر ملک کو مستحکم کرنا ہے ،یہ اس کا دستوری فریضہ ہے۔سب جانتے ہیں کہ دو ہزار اٹھارہ میں ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا۔پرانے قرضوں کا سود ادا کرنے کے پیسے نہ تھے، زرمبادلہ کے ذخائر اندھے کی آنکھ کی طرح خالی تھے۔ جنرل باجوہ خود چین گئے، سعودی عرب گئے، قطر گئے، امارات گئے اور نئی حکومت کو ڈالرز لاکر دیئے جس سے محض ماضی کی حکومتوں کا چڑھایا ہوا قرض نہیں صرف ان کے سود کی قسط ادا کی جا سکی۔ اسی دوران بھارت نے پاکستان کو دفاعی دبائو میں لانے کی سر توڑ کوشش کی، پلوامہ کا ڈرامہ رچایا اور اس کی آڑ میںپاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائک کر ڈالی جس میں نقصان بھار ت کا ہوا، دو جہاز گرے اور ایک ونگ کمانڈر ابھی نندن جنگی قیدی بنا،اس سے بھارت کے ہوش ٹھکانے آ گئے مگراس نے ہار نہ مانی اور اپنے شر دھالوئوں کے ذریعے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش شروع کر دی،وزیر اعظم عمران خان ا پوزیشن کے تیور کوسمجھتے تھے کہ وہ تواپنی کھال اور اپنا مال بچانا چاہتے ہیں اور ان سے این آر او مانگ رہے ہیں، عمران خان ڈٹ گئے کہ ایسا ہر گز نہیں ہو گا خواہ ان کی اپنی حکومت خطرے میں پڑ جائے، اپوزیشن نے پورا زور لگایا اورعمران خان بھی مرد بحران نکلا، اس نے ہر محاذ پر اپوزیشن کی بلیک میلنگ کو ناکام بنایا،سینیٹ کے اعلیٰ ترین چنائو میں اس نے پی پی پی ، ن لیگ اور جے یو آئی ف کو شکست فاش سے دوچار کیا۔
اس وقت اپوزیشن اپنے زخم سہلا رہی ہے۔،اگر اس میںکوئی دم خم ہوا تو وہ لانگ مارچ بھی کر کے دیکھ لے ،ملک کے عوام اس کاساتھ نہیں دیں گے کیونکہ ان عوام کو ماضی میں انہی جماعتوںنے لوٹ لوٹ کر کنگال کیا ، اس لیے وہ ان کے ہاتھوں ایک بار پھر بیوقوف بننے کو تیار نہیں ہیں۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کو کبھی سیاسی استحکام نصیب نہیں ہوا،قیام پاکستان کے بعد حکومتیں اتنی تیزی سے بدلتی تھیں کہ نہرو نے کہا تھا کہ میں سال اتنے پاجامے نہیں بدلتا جتنی پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں۔ بھٹو کی جمہوریت نو ستاروں والے اتحاد کو پسند نہ آئی اور انھوں نے بھٹو کو پھانسی پرچڑھا کر دم لیا،وزیر اعظم جونیجو اپنی سادگی میں حکومت کو لے بیٹھے،محترمہ بے نظیر اور نواز شریف نے ایک دوسرے کی ٹرم کو پورا نہیں ہونے دیا۔ زرداری اور نوازشریف کی حکومتوںنے اپنی اپنی آئینی ٹرم تو پوری کر لی مگر اب پھر پرانا کھیل شروع ہوگیا ہے کہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے۔آئین کہتا ہے کہ عمران خان پانچ سال پورے کرے اور پی ڈی ایم اس حکومت کو کل کی بجائے آج ہی گھر بھیجنا چاہتی ہے۔کپتان کریز پر قدم جمائے کھڑا ہے۔بانوے میں اس نے زخمی پنڈلی کے ساتھ کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا اور آج بھی اس کا عزم ہے کہ وہ اپنے حریفوں کو چت کرے گا۔