’آصفہ بھٹو پر حملہ، لانگ مارچ اورحکومتی دھمکیاں‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں کراچی سے شروع ہونے والا لانگ مارچ پنجاب کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا اس اسلام آباد ڈی چوک میں اختتام پذیر ہوا، اس لانگ مارچ کے بارے غیر جانبدار تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ ملکی تاریخ میں سب سے طویل لانگ مارچ تھا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی اور جس کی لمبائی اکتیس کلو میٹر تھی ، اس کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کے اس کے آغاز سے ہی خان حکومت نے پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کر دی جس کا فائدہ عوام الناس کو پہنچا جبکہ دوسری جانب ’’بھان متی‘‘ کا کنبہ بکھرنا شروع ہو ا ،اور خود عمران خان کے خوف کا یہ عالم ہے کہ وہ اول فول زبان استعمال کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ خصوصاً اپوزیشن لیڈروں کے خلاف کہے گئے ان کے الفاظ اس منصب کی ہی توہین ہیں جس پر عمران خان بیٹھے ہیں۔ جبکہ دنیا بھی کے تجزیہ نگار اور دانشوروں نے بھی خان کے بگڑے ذہن کانوٹس لیا ہ،اس کے ساتھ ہی خان کی اپنی پارٹی کے اراکین بھی اس لہجے سے شرمندہ دکھائی دیتے ہیں۔
 پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئر میں بلاول بھٹو زرداری نے پر ہجوم پریس کانفرنس میں جسے دنیا بھر کے میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے جلسہ عام کے دوران میرے والد اور سابق صدر آصف زرداری کو ’بندوق کے نشانے‘ کی دھمکی دی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے لیے قابل برداشت نہیں ہے۔ اس ملک کی خاطر، جمہوریت کی بحالی کی خاطر ہمارے خاندان اور جماعت نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور میری والدہ بے نظیر بھٹو نے قربانی دی ہے لیکن اب بہت ہو گیا، اب برداشت نہیں ہو گا۔انھوں نے وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ سمیت جو بھی یہ سمجھتا ہے کہ میں بچہ ہوں تو میں واضح کر دوں میں بچہ نہیں ہوں، جو کوئی شخص بھی یا قوت یہ سمجھتی ہے کہ یہ ڈر جائیں گے، ہم پیچھے ہٹ جائیں گے۔ تو سمجھ لیں، جان لیں ہم قربانی دینے والوں کا خون ہیں ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘انھوں نے وزیر اعظم کو سخت لہجے میں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر اب میرے خاندان کے ایک بھی فرد کو کچھ ہوا تو وہ ردعمل آئے گا جو اب تک اس ملک نے نہیں دیکھا اور نہ ہی آپ دیکھنا چاہتے ہوں گے۔‘
 یاد رہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے رواں ہفتے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی تھی۔ تحریک عدم اعتماد کے اگلے ہی روز وزیر اعظم ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچے تھے تاکہ اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کر کے ان کی حمایت یقینی بنائی جا سکے۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق سیاسی سطح پر اس گرما گرمی کے ماحول میں کراچی کے گورنر ہاؤس میں وزیر اعظم کی جانب سے کی گئی تقریر کافی جارحانہ تھی جس میں انھوں نے اپوزیشن رہنماؤں بشمول سابق صدر آصف زرداری، صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو بطور خاص شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ 'اب میرے ہاتھوں سے زنجیر کْھل جائے گی اور ان کو عوام کی مدد سے جیل پہنچایا جائے گا۔بلاول نے وزیر اعظم کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ جو کل بندوق استعمال کرنے کی بات کر رہے تھے، ہم نے آج تک بندوق استعمال نہیں کی مگر ہم اسے استعمال کرنا جانتے ہیں۔ ’میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں، پرامن آدمی ہوں اور زندگی بھر پرامن ہی رہوں گا۔‘انھوں نے وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سیاست کریں ہمارے ساتھ، سیاست کرنا ہمارا اور آپ کا حق ہے۔ آپ ہمیں زندگی و موت کی دھمکی دیں گے تو اس کے نتائج خود برداشت کریں گے۔ان کا کہنا ہے کہ ’موت کی دھمکی دینا کوئی مذاق نہیں ہے ہم 2022 ء میں جی رہے ہیں۔ سیاست کرنا، اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا ہمارا حق ہے۔ ہمیں کوئی دھمکا نہیں سکتا۔‘’آپ کی یہ حرکتیں حکومت گرنے کی پریشانی میں ہیں۔ میں نے عوامی مارچ میں بھی کہا تھا کہ اب انھیں حکومت گرنے کی پریشانی ہے اور یہ زیادہ گالیاں دیں گے۔ مگر اب آپ کا جھوٹ نہیں چلے گا۔
وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پر تنقید کرنے کے متعلق بات کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ’وزیر اعظم عمران خان نے مولانا فضل الرحمان کے خلاف انتہائی غلط زبان استعمال کی۔‘انھوں نے وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کون ہوتے ہو کہ مولانا فضل الرحمٰن کو گالی دو، ان کے خلاف گھٹیا زبان استعمال کرو۔‘ ان کا کہنا تھا کہ آپ کو ملک کی تاریخ کا علم نہیں ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ مفتی محمود کون ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کی تاریخ کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ گالی دینا ہمیں بھی آتاہے مگر ہم جمہوری انداز میں اس کا جواب دینا چاہتے ہیں۔
 بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا اْن کے حکومت مخالف پْرامن عوامی مارچ کے دوران نجی ٹی وی چینل کے ڈرون کا آصفہ بھٹو سے ٹکرانا ایک ’سوچا سمجھا حملہ‘ تھا۔اس واقعے پر ہماری جماعت خود بھی بین الاقوامی ماہرین کے ذریعے ایک رپورٹ تیار کروائے گی اور اس کی بنا پر آگے کا لائحہ عمل طے ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت انھوں نے اس معاملے پر بہت صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا کیونکہ وہ جمہوریت اور میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔بلاول نے یہ درست کہا کہ ،اگر اس وقت میں ردعمل میں کوئی بات کہتا تو پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو روکنا میرے اختیار سے باہر ہو جاتا۔

ای پیپر دی نیشن