لاہور( بزنس رپورٹر) الحفیظ گارڈن کے کنٹری ہیڈ حافظ عبدالستار نے کہا ہے کہ ہمارا مقصد محض پلاٹ بیچنانہیں لوگوں کوچھت فراہم کرنا ہے۔رئیل سٹیٹ سیکٹر میں حکومتی اقدامات کے نتیجے میں سرمایہ کاری ہوئی ہے ،کم وسائل رکھنے کے باوجود لوگوں کے اپنے گھروں کا خواب پورا کر رہے ہیں،اس کام میں سیدھے طریقے سے اتنا پیسہ ہے کہ دو نمبری کی ضرورت نہیں ۔اعتماد کا رشتہ ہی میرا اصل زر ہے، نائن الیون کے بعد پاکستان میں جس کاروبار کو سب سے زیادہ عروج حاصل ہوااور اس نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی وہ رئیل سٹیٹ تھا،دوسرے ملکوں سے پاکستانیوں نے بھی سرمایہ کاری کی ،جس کے نتیجے میں زمینوں اور پلاٹوں کی قیمتوں کوپرلگ گئے۔ہائوسنگ سوسائٹیوں کے نام پر کئی فراڈ بھی ہوئے لیکن لوگوںکااپنے گھرکاخواب بھی پوراہورہاہے۔آج رئیل سٹیٹ کا کاروبار کس حال میںہے اورڈویلپرز کو کن مسائل کا سامنا ہے؟یہ جاننے کیلئے معروف ہائوسنگ پراجیکٹ الحفیظ گارڈن کے کنٹری ہیڈ حافظ عبدالستار سے ہونیوالی گفتگو قارئین کے پیش نذر کی جارہی ہے۔ حافظ عبدالستار نے گفتگوکاآغازکرتے ہوئے بتایاکہ میں نے بی سی ایس کرنے کے بعد مارکیٹنگ میںایم بی اے کیااور 2003ء سے رئیل سٹیٹ کے شعبے سے وابستہ ہوں۔ایم بی اے کے دوران ہی بحریہ ٹائون کیساتھ وابستہ ہوگیاتھا، میں نے ایم بی اے کی انٹرن شپ بھی وہیں کی تھی۔اس دوران 2004ء میں دو پراجیکٹس آئے۔ فیز 9 بحریہ ٹائون راولپنڈی اور سیکٹر سی بحریہ ٹائون لاہور،میں نے ان دونوں پراجیکٹس بھرپور طریقے سے حصہ لیا،پلاننگ سے لے کر فارمز کی تقسیم تک ہر عمل میں بھرپور کام کیا۔بحریہ نے یہ نئے ٹرینڈز دیئے جسے بعد میں ڈی ایچ اے نے بھی د ہرایا۔ 2010ء کے بعداپناکاروبار شروع کر دیا۔ اس کے علاوہ میگاڈیلز میری خصوصی اہلیت تھی۔وہاں 2020ء تک میرا آفس رہااورہم نے بہت اچھی ڈیلز ڈیزائن کیں۔اس دوران لاہور سے باہر اور لاہور کے اندر اور بھی کئی میگا ڈیلزڈیزائن کیں جو الحمد للہ کامیاب رہیں۔ اکتوبر 2020ء سے ستمبر 2021ء تک تقریباً گیارہ ماہ کا عرصہ میں نے الرحمٰن گارڈن میں بطورکنٹری ہیڈکام کیا۔ان گیارہ ماہ میں میں نے انہیں پچاس بلین کا بزنس دیا۔ان کے لاہور کے علاوہ سیالکوٹ میں بھی پراجیکٹس تھے،لاہور میں جو پراجیکٹس ڈیڈ تھے وہ اب بہت اچھے چل رہے ہیں۔وہاں شیخ محمد دائود کیساتھ میری ملاقات ہوئی جو الحفیظ گارڈن کے روح رواں ہیں۔میاں مشتاق اور شیخ محمددائود آپس میں گہرے دوست ہیں۔اب میں الحفیظ گارڈن میں بھی بطورکنٹری ہیڈ کام کر رہا ہوں اوریہاں آئے لگ بھگ چار ماہ ہوئے ہیں۔ حضرت عثمان غنیؓ جب ہجرت کر کے مدینہ آئے انصار نے مہاجرین کواپنے کاروبار اور گھروں میں حصہ دار بنایا۔ اس موقع پرحضرت عثمان غنیؓ کو بھی یہ پیشکش ہوئی تو انہوں نے تاریخی جملہ کہا ’’میں بھی اگرچہ کچھ ساتھ نہیں لایا لیکن مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے آپ مجھے صرف مارکیٹ کا راستہ بتا دیں میں خود سب کچھ سنبھال لوں گا۔‘‘یہ مثال ہم سب کیلئے مشعلِ راہ ہے۔میں جب الحفیظ گارڈن میں آیا تو ہرچیزصفر پر تھی،مارکیٹ نہیں تھی،ڈیلرزنہیں تھے،یہاں بھی دوستوں کا اعتماد میرے ساتھ تھااوراعتماد کایہ رشتہ میرا اصل زر ہے۔الحمدللہ لوگوں نے مجھ سے پوچھا بھی نہیں ہے کہ یہاں کیا ریٹ ہے؟مجھ سے پہلے لوگوں کے پلاٹ بکتے نہیں تھے وہ آج مجھے دعائیں دیتے ہیں۔اب اس پورے علاقے میں بزنس ماڈل تبدیل ہو گیا ہے،میں نے بزنس کنسلٹنٹس کو فرنشڈ کنٹینرز فراہم کئے تاکہ ان کی عزت و وقار میں اضافہ ہو۔ حدیث نبویؐ ہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کر دی جائے۔میں نے شیخ صاحب سے بات کی تو انہوں نے بھرپور معاونت کی،اب یہاں کام کرنیوالے لوگوں کو روزانہ کی بنیاد پر پیسے مل رہے ہیں۔ ایل ڈی اے کی ہماری اپروول رکی ہوئی تھی جو اب ہو گئی ہے۔ کیارئیل سٹیٹ میں اس وقت حقیقی خریدار ہیں یا لوگ صرف سرمایہ کاری کر رہے ہیں؟حافظ عبدالستارنے بتایا جب بھی رئیل سٹیٹ کا کوئی پراجیکٹ آتا ہے تو اس میں سب سے پہلے انویسٹرآتا ہے جس سے پراجیکٹ آن گرائونڈ نظر آنا شروع ہوتا ہے اوراسے دیکھ کرحقیقی خریدار بھی آتا ہے۔ہمارے پاس گھربنانے والے بہت زیادہ ہے جو خوش آئند ہے کیونکہ سوسائٹی کی لوکیشن بہت اچھی ہے۔ہائوسنگ سکیموں کے نام پر عوام کے ساتھ بہت زیادہ فراڈ بھی ہورہا ہے جس پرمیں صرف ایک بات کرتا ہوں کہ اس کاروبار میں سیدھے کام سے اتنا پیسہ ہے کہ دونمبری کی ضرورت ہی نہیں ہے۔جو لوگ ڈیلیور نہیں کر پاتے انہیں میرا مشورہ ہے کہ وہ ڈیلیور کرکے دیکھیں۔کسی بھی ہائوسنگ سوسائٹی میں پلاٹ خریدنے سے پہلے کچھ چیزوں کی تسلی کرلینی چاہیے۔پراجیکٹ اگر لاہور میں ہے تویہ دیکھناچاہیے کہ وہ ایل ڈے اے سے منظور شدہ ہے یا نہیں؟ اس کے پیچھے ڈویلپر کا پس منظر کیا ہے؟ ڈویلپر جو باتیں کر رہا ہے وہ قابل عمل ہیں یا نہیں؟ اس نے دو تین سالوں کے دوران جو پلاٹ بیچے ہیں ان کا سٹیٹس کیا ہے، سوسائٹی کی زمین متنازعہ تو نہیں ہے؟ لوگ اکثر مجھ سے کہتے ہیں کہ کم ازکم ماہانہ قسط اور کم ازکم ڈائون پیمنٹ پر ہمیں پلاٹ چاہیے۔ جس پرمیں کہتا ہوں لے لیں لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ لوگ کم ماہانہ قسط اور کم ڈائون پے منٹ کے لالچ میں پھنس جاتے ہیں اور سالہا سال تک قسطیں دیتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ کرپہلے ہی ڈویلپر کودیئے ہوتے ہیں ،اس لئے میرا مشورہ ہے کہ فیصلہ سوچ سمجھ کرکریں۔