فارسی ز بان کا محاورہ ہے ہرکہ آمد عمارتِ نو ساخت۔ باالفاظ دگر جو بھی آتا ہے وہ اپنی اپنی ڈفلی بجاتا ہے۔ انوکھے راگ الاپتا ہے۔
وطنِ عزیز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ نئی عمارت تعمیر ہو یا نہ ہو، پر اپنوں کا حلیہ ضرور بگاڑ دیا جاتا ہے۔ اگر مسمار نہ کر سکیں تو بھی پرانے معماروں پر مین میخ اور الزام تراشی کا ایک نہ ختم ہونے والا طومار باندھ دیا جاتا ہے۔ بالفرض کوئی منصوبہ زیر تکمیل ہو تو اس کو وہیں روک دیا جاتا ہے۔ اس طرح خرچ کی ہوئی رقم عملاً ضائع ہو جاتی ہے۔ Inflaction کی وجہ سے لاگت بڑھتی جاتی ہے اور عوام کو اس کے ثمرات سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی تعمیرات میں تخریبی عمل جاری رہتا ہے۔ مخالفین کے فلک بوس پلازوں کو تکنیکی بنیادوں پر کسی نہ کسی عذر لنگ پر گرا د یا جاتا ہے۔ اب دور کیا جانا۔ بارہ سال قبل جب شریف برادران ایک طویل جلاوطنی کے بعد واپس آئے تو دور افتادگی کا سارا کرب، غم و غصہ انہوں نے مخالفین کی جھولی میں ڈال دیا۔ چونکہ پہلی ٹرم میں صرف پنجاب کی حکومت ہاتھ آئی تھی اس لیے انہوں نے ہر اس تعمیراتی کام کے بخیے اُدھیڑ نے شروع کئے جو پہلی حکومت کر گئی تھی۔ سب سے پہلے تو چھوٹے صاحب نے وزارت عُلیا کا ٹائٹل بدل دیا۔ پہلے ’’خادمِ اعلیٰ‘‘ کا لقب اختیار کیا۔ جب ان کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی گئی کہ عالیجاہ! خادم کبھی اعلیٰ نہیں ہوتا۔ ہندوستان کی تین ہزار سالہ تاریخ میں کوئی ایک بھی خدمت گار ایسا نہیں گزرا جس کے جلّو میں لشکر و سپاہ ہوں اور جو سینکڑوں کمانڈوز کی معیت میں بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرتا ہو تو انہوں نے کافی غور و خوض کے بعد اسے ’’ڈائون گریڈ‘‘ کر کے خادم پنجاب بنا دیا۔ دوسرے الیکشن میں واضح برتری کے بعد انہوں نے ’’نوکرِ پنجاب‘‘ کا لقب اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ وہ تو بھلا ہو کسی مشیر کا، جس نے سمجھایا کہ جوشِ خطابت میں اس حد تک نیچے نہ چلے جائیں کہ اٹھنا مشکل ہو جائے۔ ویسے بھی Humility اور Humilation میں بال برابر کا فرق ہوتا ہے۔
پہلے دور میں میاں صاحب نے جب ترجیحات کا تعین کیا تو دو کام فوری نوعیت کے نظر آئے۔ مہنگائی کا خاتمہ، بجلی و گیس کی فراہمی، بے روزگاری وغیرہ ثانوی حیثیت اختیار کر گئیں۔ سب سے پہلے تو انہوں نے ان ہزاروں لوگوں کو بے روزگار کیا جنہیں چوہدری پرویز الٰہی نے بھرتی کیا تھا۔ نوکری میں ایکسٹینشن دی تھی یا کنٹریکٹ پر رکھا ہوا تھا۔ اس کے لیے ان کی انڈر نائنٹین ٹیم نے دن رات ایک کر کے فہرست مرتب کی اور سب کو ایک فرمان کے ذریعے فارغ کر دیا گیا۔ بعد میں ا س خلا کو اپنے خاص الخاص لوگوں کے ذریعے پُر کیا گیا۔ دوسرا کارنامہ اس عمارت پر چھاپہ تھاجو چوہدری پرویز الٰہی نے وزیر اعلیٰ آفس کے لیے بنوائی تھی۔ یہ صحافیوں کی پوری فوج لیکر گئے اور کچھ ایسا تاثر دیا جیسے پرویز الٰہی کی چوری رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہو۔ اس ’’فضول خرچی‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے میاں صاحب آبدیدہ ہو گئے۔ قومی دولت کا ایسا ضیاع! یوں گمان ہوتا تھا کہ اگر بروقت نوٹس نہ لیا جاتا تو عمارت سازو سامان کے ساتھ نت ہائوس منتقل ہو جانی تھی! اس غمزدہ ماحول میں میاں صاحب نے اعلان کیا اس عمارت میں وزیر اعلیٰ نہیں بیٹھے گا۔ یہاں I.T یونیورسٹی بنے گی! یونیورسٹی تو بوجوہ نہ بن سکی، پانچ وزیر اعلیٰ آفس بنا دئیے گئے۔ 7 کلب روڈ، 8 اور 9 ،90 شاہراہ قائد اعظم سول سیکرٹریٹ! ماڈل ٹائون وغیرہ!علامہ اقبال نے کہا تھا
؎خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سُن لے !
اس کے برعکس ہم ان گلوں شکوئوں کے باوصف مثبت پہلوئوں سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔ میاں صاحب یقینا ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر تھے اور قدرے دیر سے ہی سہی، انہوں نے لوڈشیڈنگ کے عذاب سے لوگوں کو نجات دلوائی۔ لاہور کا چہرہ نکھارا۔ ٹریفک کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ لاہور ان کا شہر ہے اس لیے اس پر زرکثیر خرچ کیا گیا۔ وہ غلطی پر ہیں۔ یہ کاسمو پولیٹن سٹی ہے۔ اس میں رحیم یار خان کے مخدوم، قریشی اور چوہدری بھی بستے ہیں۔ یہ ملتان کے زمینداروں کا مسکن ہے۔ مری اور پوٹھوہار کے راجگان ، خیبر پختون خواہ کے خانوں اور سندھ کے وڈیروں نے عالیشان عمارات کھڑی کر رکھی ہیں۔ یہ لوگ کاروبار کرتے ہیں۔ آخر کوئی نہ کوئی تو ایسا شہر ہونا چاہیے جسے پاکستان کی شناخت اور پنجاب کا دِل کہا جا سکے! بالفرض سیاسی اغراض کی وجہ سے تنقید کی جائے تو بھی بے جا ہے!
عمران خان نے بھی بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ اقتدار سنبھالا ، زرکثیر سے بننے والے وزیر اعظم ہائوس پر تنقید کی۔ گورنر ہائوسز کو سامراجی وقت کی یادگار قرار دیا۔ پہلے دن ہی انہیں بلڈوز کرنے کا عندیہ دیا۔ انہوں نے بھی وزیر اعظم ہائوس میں نہ ٹھہرنے کا اعلان کیا اور اسے I.T یونیورسٹی بنانے کا قوم سے پکا وعدہ کیا۔ وزیر اعظم ہائوس کی بھینسیں تک بیچ ڈالیں۔ اس طرح ایک ’’زرکثیر‘‘ قومی خزانے میں جمع کرایا! اپنے لیے 4 کنال پر محیط الگ سے مکان مختص کیا۔ صرف دو بُلٹ پروف گاڑیوں پر اکتفا کیا۔ اعلان کیا کہ وہ بیرونی دوروں پر چارٹرڈ جہاز پر نہیں بلکہ ٹکٹ کٹا کر جائیں گے۔ کیبنٹ میٹنگز میں سینڈوچز پر پابندی لگا دی۔ بسکٹوں پر اکتفا کرنے کا عندیہ دیا۔ مدینہ کی ریاست کے قیام کا پختہ عزم کیا۔ کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کی سوگند کھائی!
کیا یہ سب وعدے پورے ہو گئے ہیں؟
اگر بھینسیں بیچ دی تھیں تو دو بُلٹ پروف گاڑیوں کی کیا ضرورت تھی؟ ساری بھینسوں کی قیمت سے تو ان کا یونٹ تک نہیں آتا۔ کیا مدینہ کی ریاست میں خلفاء راشدین ہاتھیوں پر بیٹھتے تھے۔ مدینے سے یروشلم تک کا سفر دو اُونٹوں پر کرتے تھے۔ اگر ہندوستان جیسے ملک کا وزیر اعظم موروتی کار پر سفر کرتا ہے تو پاکستانی وزیر اعظم سوزوکی پر کیوں نہیں بیٹھ سکتا؟ جتنی رقم ناتجربہ کاری کی بنا پر ضائع ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ وہ کہنہ مشق کرتے تھے۔ ہزاروں پونڈ تو سرکاری خزانے سے رٹز اور ڈار چیسٹر ہوٹلوں کے بیروں کو ٹپ کی مد سے دے دیا جاتا تھا۔ آپ کے پاس نہ کوئی میکانزم ہے نہ ڈار جیسا معاشی گرگ و باراں دیدہ لیکن ایک بات یاد رکھیں۔ تاریخ نے آپ کی حکومت کی کارکردگی دیکھنی ہے باقی باتیں ثانوی حیثیت اختیار کر جائیں گی۔