دو باتوں کا دو روز سے خوب چرچا ہے۔ ایک توشہ خانے کے پچھلے ریکارڈ کا اور ایک عمران خان کی ”سمارٹ ریلی“ کا۔ تو چلئے ، اس چرچے کا تھوڑا چرچا ہم بھی کر لیں۔ توشہ خانے کے ریکارڈ نے بتا دیا کہ کس کس نے کتنے غیر ملکی تحفے ”علامتی قیمت“ دے کر خود رکھ لئے۔ جو کیا قانون کے مطابق کیا لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ اخلاقی آئین کی بات کی جائے تو یہ قانون بذات خود خلاف قانون ہے کہ ایک کروڑ کا تحفہ دس بیس لاکھ د ے کر رکھ لیا جائے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال نے یہ آئینی غلطی دور کر دی ہے اور جتنے تحفے لئے، سب کی پوری قیمت سرکار کے خزانے میں جمع کرا دی ہے۔ آئین کی اس تصحیح کی پیروی اب باقی سب کو بھی، ماسوائے بیوروکریسی اور عمران خان کے، کرنی چاہیے بالخصوص نواز شریف کو۔ وہ بڑی آسانی سے پوری قیمت سرکاری خزانے میں جمع کرا سکتے ہیں۔ یہ تجویز تو آ ہی گئی ہے کہ توشہ خانے کا یہ غیر قانونی قانون اب باضابطہ طور پر غیر قانونی قرار دے دیا جائے۔ جامعہ نعیمیہ والوں کا تو اس بارے میں بجا اور برحق فتویٰ بھی آ گیا ہے۔
رہا بیوروکریسی اور عمران خان کے استثنیٰ کا معاملہ تو اس کی وجہ کچھ یوں ہے کہ بیوروکریسی پاکستان کی مالک ہے اور مالک دیا نہیں کرتے، بس لیا کرتے ہیں اور عمران خان کو تو آئینی عدالت ”معمولی آدمی نہیں ہیں“ کی سند دے چکی ہیں چنانچہ جو غیر معمولی ہے، معمول کے ضابطے ان پر لاگو نہیں ہوتے اور ویسے بھی ان کے پاس توشہ خانے کی کوئی چیز ہے بھی نہیں، جو تھا ، سب سستے میں بیچ دیا اور جب ان کے پاس کچھ ہے ہی نہیں تو قیمت دینے کا سوال ہی فضول ہے۔ ان کے غیر معمولی ہونے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ ان کے لئے جاری کردہ وارنٹ اگلے ہی لمحے تو نہیں لیکن اگلے ہی دن ضرور معطل یا منسوخ ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی غنیمت ہے ورنہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وارنٹ کے ساتھ ساتھ وارنٹ جاری کرنے والے بھی ”منسوخ“ قرار دئیے جاتے۔
____________
ریلی جو زماں پارک سے نکلی اور داتا دربار جا کر تحلیل ہو گئی ، اپنی مثال آپ تھی۔ ایسی سمارٹ ریلی پہلے کسی نے کہاں دیکھی ہو گی، جدھر دیکھو، حد نظر تک سڑک نظر آتی تھی۔ ایسی سمارٹ کہ پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے پنجاب حکومت کی مذمت کر ڈالی، اس بات پر کہ اس نے ریلی رہنما پنجاب حکومت کی مذمت کر ڈالی، اس بات پر کہ اس نے ریلی نکالنے کی اجازت کیوں دی، ایک دن پہلے کی طرح اس پر پابندی کیوں نہیں لگائی۔ اجازت نہ ملتی تو ہمیں اتنی لمبی خالی سڑک نہ دیکھنا پڑتی۔
خان صاحب کی یہ سمارٹ ریلی تو داتا صاحب پہنچ گئی، خان صاحب نہیں پہنچے۔ وہ پیچھے کہیں مال روڈ پر ہی رک گئے اور وہیں سے ، بلٹ پروف گاڑی کے اندر سے مختصر سا خطاب کیا اور چلتے بنے۔
خطاب میں ایک غیر معمولی بات نظر نہیں آئی۔ اس کا غیر معمولی اختصار نہیں بلکہ یہ کہ کچھ ایسا لگا کہ خان صاحب خطاب تو کرنا چاہ رہے ہیں لیکن کر نہیں پا رہے یا یہ کہ وہ خطاب کرنا ہی نہیں چاہ رہے تھے لیکن کرنے پر مجبور تھے۔ جو بات سمجھ میں آ سکی وہ یہ تھی کہ اس نیم مرئی اور نیم غیر مرئی ریلی سے مطمئن نہیں، اطمینان کی کمی پوری کرنے کے لیے اتوار کو مینار پاکستان پر بڑا ”ریلا“ منعقد کرنا چاہتے ہیں لیکن یہاں اب پھر ایک مسئلہ ہے۔ 2014ءسے بات نو دس سال آگے نکل چکی، اب نہ تو ویسے چشمہ ہائے فیض باقی رہے اورنہ کسی کے ”ظہیر‘ پذیر ہونے کی صورت ہے۔ قارئین محترم، ظہیر اسے کہتے ہیں جو ظاہر ہو جائے یعنی ظہور یا ظہیر پذیر ہو جائے اب نہ وہ آنے والے رہے نہ لانے والے رہے یہاں تک کہ اب چھوٹے کو بڑا دکھانے والے ”کیمرے“ بھی نہیں رہے ۔ چلئے، خان صاحب حصول اطمینان کی ایک عدد کوشش اور کر لیں۔ لکھتے وقت کی اطلاع ہے کہ زمان پارک کے اندر ذمہ داران لاہور خان صاحب سے ملنے کے لیے پہنچے تو انہوں نے شرف حضوری سے منع کر دیا۔ آنے والے ”خطا بخش ”گر خطا ہو گئی“ کی دھن بھی نہ بجا سکے اور اور عالم سرنگون میں واپس چلے گئے۔
____________
خبر ہے کہ بھوٹان زیادہ غریب ممالک کی فہرست سے نکل گیا ہے، یہاں لوگوں کی فی کس آمدنی کئی گنا بڑھ گئی ہے، سہولتیں پہلے سے زیادہ ہیں اور ترقی بھی بہت ہوئی ہے چنانچہ یہ بہت غریب ملکوں کی صف سے نکل کر معمولی غریب بلکہ مناسب حد تک کھاتے پیتے ملکوں کی فہرست میں آ گیا ہے۔
بھوٹان اکیلا ہی بہت غریب ملکوں کی فہرست سے نکلانہیں، ساتھ ہی پاکستان بھی اس فہرست سے نکل گیا ہے اور نکل کر بہت زیادہ اور انتہائی غریب ملکوں کی فہرست میں جا شامل ہو گیا ہے۔
دونوں ملکوں کو بہت غریب ملکوں کی فہرست سے نکلنے پر، اپنے اپنے، حساب سے مبارک ہو!
____________
طالبان حکومت کے اعلیٰ تعلیم کے وزیر ندا احمد نے کہا ہے کہ حکومت سے اختلاف کرنے والوں کو قتل کر دینا چاہیے۔
اعلیٰ تعلیم کے وزیر ہیں، اس لئے قتل کی بات کی۔ عام تعلیم کے وزیر ہوتے تو شاید عمر قید پر ہی اکتفا کرتے۔ بہرحال، ان کے اس بیان پر عوام نے غم و غصہ ظاہر کیا ہے۔ غم و غصہ ظاہر کرنا بھی اختلاف ہے، دیکھئے وزیر اعلیٰ تعلیم اجتماعی سزائے موت کا حکم کب جاری کرتے ہیں۔
یاد آیا، تین سال پہلے ایک پڑوسی ملک کے وزیر اعظم نے بھی ایک انٹرویو میں اسی قسم کے ”اعلیٰ تعلیم یافتہ “ خیالات ظاہر کئے تھے۔ شاید وہ بھی اپنے اس ارادے پر عمل کر ہی ڈالتے لیکن برا ہو اس واردات کا جو ”رجیم چینج“ کے نام پر ان کے ساتھ ہو گئی۔
____________
نواز شریف کے حوالہ سے چند دن پہلے یہ خبر آئی کہ وہ اگلے پندرہ دن سے دو مہینوں تک کی مدت میں وطن واپس آ رہے ہیں۔
لگ بھگ ایک ہفتہ اس بیان کو ہو گیا ہے۔ گویا ان کی واپسی میں ایک ہفتہ یا ایک مہینہ اور 22 دن رہ گئے۔
سچ پوچھئے تو یہ خبر ایک ہفتہ نہیں، دو سال پرانی ہے۔ سب سے پہلے یہ خبر 2021ءمیں آئی کہ واپسی اسی سال کے آخر تک طے ہے۔ مہینہ بھی بتا دیا گیا اوریہ کہ دسویں یا گیارہویں مہینے میں آ رہے ہیں اور تب سے یہ خبر ہر دوسرے مہینے آنے لگی اور ابھی تک آتی چلی آ رہی ہے۔ دیکھئے، تازہ مدت پوری ہونے تک نواز شریف واپس آتے ہیں یا ایک اور خبر آ جائے گی۔
ایک سیاسی نجومی کا کہنا ہے کہ اسی طرح کی خبریں مزید کچھ عرصہ آتی رہیں گی اور جب سب لوگ ان کی واپسی کے امکان سے مایوس ہو جائیں گے تو ایک دم وہ دھم کر کے آ جائیں گے___ شیر آیا شیر آیا کی صحیح تعبیر بن کر۔
____________