عمران خان بہت شدت کے ساتھ نئے پاکستان، کرپشن سے پاک پاکستان اور دو نہیں ایک پاکستان ان کے فلسفے کو بیان کرتے رہے ہیں انہوں نے امیر اور غریب کے لیے یکساں قوانین، طاقت ور اور کمزور کے ساتھ ایک جیسے برتاو¿ کا بہت درس دیا ہے۔ وہ قانون کو سب کے لیے ایک جیسا کرنے کے خواہشمند رہے لیکن بدقسمتی ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ ان وعدوں کو نبھانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ آج پولیس ان کو گرفتار کرنا چاہتی ہے وارنٹ جاری ہوتے ہیں لیکن گرفتاری عمل میں نہیں آتی، پولیس ان کے گھر آتی ہے اور واپس چلی جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتنے پاکستانی ایسے ہوں گے جن کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوں اور گرفتاری نہ ہو سکے پولیس آئے اور مہذب انداز میں واپس بھی چلی جائے گذشتہ روز بھی پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں میں بھی آنکھ مچولی جاری رہی کیا کسی عام آدمی کے ساتھ بھی ایسا برتاو¿ ہوتا ہے یقینا نہیں اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ واقعی طاقتور اور کمزور کے لیے قانون کا برتاو¿ مختلف ہی ہوتا یے۔ عمران خان ایک پاکستان کے وعدے کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔ وہ خود بھی ایک طاقتور شخص ہیں ان کے اور کمزور افراد یا اتنی مقبولیت نہ رکھنے والے سیاستدانوں کے لیے بھی قانون الگ ہی ہے۔ یوں کہا جس سکتا ہے کہ واقعی عمران خان سچ کہتے تھے کہ پاکستان دو ہیں ایک عمران خان کا پاکستان ایک عام آدمی کا پاکستان۔ اسی طرح مریم نواز کا پاکستان اور ہے ان کے ووٹر کے لیے پاکستان اور ہے، بلاول بھٹو زرداری کے لیے پاکستان اور ہے لیاری کے غریب کے لیے پاکستان اور ہے، مولانا فضل الرحمان کے لیے پاکستان اور ہے مدرسے کے طالب علم کے لیے پاکستان اور ہے، خالد مقبول صدیقی کے لیے پاکستان اور یے ناظم آباد کے ووٹر کا پاکستان اور ہے۔ یہ ملک میں قانون کے نفاذ اور آئین پر عمل کرنے کا حلف اٹھانے والوں کا حال ہے۔ اس میں بہت سے نام اور بھی شامل ہو سکتے ہیں لیکن پھر کس کس کا نام لکھا جائے۔ بہرحال تلخ حقیقت ہے کہ کمزور اور طاقتور برابر نہیں ہیں، بااثر بااختیار اور مالدار کے لیے آئین اور قانون الگ الگ ہی ہیں۔ یہ سب جاننے کے باوجود بھی ہم کہتے ہیں کہ ملک ترقی کرے گا۔ روزانہ ہم سڑکوں پر تماشا لگاتے ہیں اور دنیا سے کہتے ہیں ہماری مدد کرے۔ اتنا سرمایہ ہم ضائع کرتے ہیں کہ کوئی حساب لینے والا نہیں ہے۔ کوئی حساب کرنے والا نہیں ہے بس حساب کے نام پر سیاست ہوتی یے اور کچھ نہیں۔ ایک طرف ہم ہیں کہ سڑکوں پر لڑتے جا رہے ہیں اور دوسری طرف بھارت اپنی دفاعی قوت میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ یقینا وہ دفاعی قوت میں اضافہ اپنے لوگوں پر استعمال کے لیے نہیں کر رہا اس کا ہدف پاکستان ہے اور ابھینندن کے حملے کی صورت میں اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان ہی اس کا سب سے بڑا ہدف ہے کیا ہم دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
بھارتی جنگی جنون میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارا ہمسایہ اور دشمن ملک دو ہزار اٹھارہ سے دو ہزار بائیس تک دنیا میں اسلحہ خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ سویڈن کے تھنک ٹینک سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق روس کی جانب سے سب سے زیادہ اسلحہ بھارت کو فراہم کیا جاتا ہے، جس کے بعد فرانس دوسرے اور امریکا تیسرے نمبر پر ہیں۔دنیا میں اسلحہ خریدنے والے 5 بڑے ممالک میں بھارت کے بعد سعودی عرب، قطر، آسٹریلیا اور چین شامل ہیں۔دنیا بھر میں دو ہزار اٹھارہ سے دو ہزار بائیس کے دوران اسلحے کی فروخت میں سینتالیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ اسی عرصے میں دنیا بھر میں فروخت ہونے والے اسلحے کا گیارہ فیصد حصہ بھارت نے خریدا۔ بھارت کی طرف اسلحہ خریدنے میں اس حد تک دلچسپی اور اضافہ واضح طور پر خطے میں امن کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ ہمارا ہمسایہ ہر وقت دفاعی طاقت میں اضافے کی حکمت عملی پر کام کرتا ہے ہمیں اپنی دفاعی قوت کو بڑھانے کے لئے سیاسی استحکام کی طرف توجہ دینا ہو گی۔ اسی کالم کے شروع میں جو لکھا گیا یے اس کا براہ راست تعلق ایسے معاملات سے ہے ہمیں اپنی سیاسی طاقت خط مظاہروں سے ہی فرصت نہیں اور دشمن اپنی دفاعی قوت میں اضافے پر توجہ دے رہا ہے۔دوسری طرف وہاں مسلمانوں کے لیے بھی زمین مسلسل تنگ کی جا رہی ہے حتی کہ انہیں مذہبی آزادی بھی حاصل نہیں ہے۔
"بی جے پی کے سابق وزیر کے ایس ایشواراپا نے اذان کے حوالے سے انتہائی توہین آمیز بیان دیتے ہوئے اذان پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ کے ایس ایشواراپا عوامی اجتماع کے دوران اذان کے احترام میں رکنے کے بجائے توہین آمیز گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جہاں بھی گیا اذان میرے لیے درد سر بنی رہی، یہاں ایک سپریم کورٹ جج ہے جو آج نہیں تو کل اذان کی آواز کو ختم کردے گی۔ اذان کی کوئی ضرورت نہیں لہٰذا اس مسئلے کو جلد سے جلد حل کیا جانا چاہیے۔"
کیا یہ مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر حملہ نہیں ہے۔ کیا دنیا اس طرف توجہ دے گی۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار تو ہے لیکن درحقیقت حالات اس کے برعکس ہیں۔ جہاں کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو اس انداز میں ٹھیس پہنچائی جائے اور دنیا خاموش رہے جن لوگوں کو بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا خیال آتا ہے انہیں ایسے واقعات پر ضرور توجہ دینی چاہیے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ایک طرف اسلحے کی خریداری میں بھارت مسلسل اوپر جا رہا ہے دوسری طرف مذہبی انتہا پسندی بھی سب کے سامنے ہے۔ اصل نشانہ مسلمان ہیں۔ وہ بھارت میں رہنے والے ہیں یا پھر پاکستان یا پھر کشمیر کے مظلوم مسلمان۔ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم سے خطے کے امن کو خطرات لاحق ہیں اور ان خطرات میں ہر گذرتے دن کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔