بحرانوں سے نجات کا راستہ۔ انتخابات !

Mar 15, 2023

لیاقت بلوچ....جماعت اسلامی


 آئین پاکستان، قیام پاکستان کے مقاصد اور قرآن و سنت کے احکامات سے انحراف اور بغاوت کی وجہ سے ملک بحرانوں کا شکار ہے۔ فوجی آمریتوں، پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ ، پاکستان تحریک انصاف کا بدنماطرز حکمرانی، کرپٹ نظام اور غلامانہ ذہنیت کے مالک پالیسی ساز، ملک وملت کی اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں،کرپٹ ، بے حس ، مفاد پرست اشرافیہ قومی و جود کے لیے سرطان بن گئی ہے۔ عام آدمی ،محنت کش طبقہ اور امانت و قناعت سے گزر بسر کرنے والے طبقات کے لیے بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھ گئے ہیں۔
ملکی سیاسی صورت حال مسلسل بے یقینی اور افراتفری کاشکار ہے ، ماضی کے حکمرانوں کی طرح پی ڈی ایم اتحادی حکومت مسائل حل کرنے اور بحرانوں کا خاتمہ کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ جذباتی اور نمائشی ،شدت پسندانہ اور نفرت پر مبنی انتقامی سیاست نے آئینی ، جمہوری ،پارلیمانی بحران مزید گہراکردیا ہے۔ قومی سیاسی قیادت کی انا، ضد اورہٹ دھرمی کی وجہ سے سیاست بے وقار ،بے توقیر اور سیاسی پارلیمانی نظام بے معنی ہوگیاہے۔ 
پاکستان کی اسلامی نظریاتی ،اخلاقی اور تہذیبی اقداراور شناخت کا حلیہ بگاڑدیا ہے۔ اقتصادی بحران تو خوفناک ہے ہی لیکن عملاً ملک کو اخلاقیات ، تہذیب ، شائستگی اور برداشت کے محاذ پربھی دیوالیہ کردیاگیاہے۔ سیاسی شدت ،انتہاپسندی اورذاتی انابڑا قومی روگ بن چکے ہیں ، بے اصول ، کرپٹ اور مفاد پرست طرز سیاست اس تباہی کا اصل ذمہ دار ہے۔ 
قومی سلامتی کے لیے خطرات مسلسل بڑھتے جارہے ہیں ، اقتصادی محاذ اور خارجہ محاذ پرمستحکم اور مضبوط پالیسی نہ ہونے سے ملکی وجود، آزادی،خودمختاری اور ایٹمی صلاحیت کے لیے خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان دشمن قوتیں اپنے شیطانی ایجنڈے پرپیش رفت کررہی ہیں جبکہ سول ملٹری تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی ، ریاستی اداروں کی کمزوری ، ریاست کی طرف سے لاقانونیت اور مسلط کردہ اقدامات ،فوج اور عوام کے درمیان خوفناک فاصلہ پیداکررہے ہیں۔ سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو نا انصافی ، لاقانونیت اور طاقت کے گھمنڈ میں اختیار کردہ روش کو ختم کرناچاہیئے۔ عوام اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو رول آف لائ اور آئینی حدود کو قبول کرکے ختم کرنے کاراستہ اپنانا چاہیئے۔
اقتصادی بحران بھیانک اور خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے۔ سودی قرضوں ،شرح سود میں 20%اضافہ ،بد انتظامی اور کرپٹ معاشی اقدامات مکمل طور پر ناکام ہیں۔ مہنگائی بے قابو ، ادویات کی قیمتوں میں ہوشربااضافہ،روپے کی قدر میں گراوٹ ،بجلی ،گیس ،تیل کی گرانی سے تجارت ، صنعت اور زراعت کاپہیہ جام ہے۔ اتحاد ی حکومت نے 85سے زائد وزیروں اورمشیروںکی ناکارہ فوج مسلط کرکے عوام میں بے چینی نفرت اور انتقام کے جذبات بھڑکا دیئے ہیں، فوجی ، سول انتظامیہ اور کرپٹ مفاد پرست سیاسی مافیاز کے بے تحاشہ غیر ترقیاتی اخراجات اور عیاشیاں ناقابل برداشت بوجھ بن چکی ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوںکے بعد3کروڑ سے زائد متاثرین کی بحالی اور امداد سے وفاقی و صوبائی حکومتیں فرار ہوگئی ہیں۔ متاثرین سیلاب انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہیں۔حاصل شدہ امداد میں شفافیت کا خیال نہیں رکھا گیا۔ زراعت کے لیے تباہ کن پالیسیوں اور رویوں نے گندم ، آٹا، چینی ،کپاس ، باغات اورسبزیوں جیسی فصلات کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کردیا ہے۔ سودی نظام اقتصادی تباہی کی بنیاد ہے لیکن حکمران اورپالیسی ساز وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں، پوری ڈھٹائی سے سود کے خاتمہ کی بجائے شرح سود تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچادی گئی ہے۔عالمی سطح پر کشکول پھیلانے ،کرپشن اور بدانتظامی کی وجہ سے آئی ایم ایف کی شرائط بدترین اور تباہ کن ہیں۔ حکمران اسلامی معاشی نظام ، خود انحصاری ، خود داری ،بیرون ملک پاکستانیوں کی طاقت پر انحصار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ نوشتہ دیوار ہے کہ اب ملک پر مسلط حکمران ٹولے کے ہاتھوں اقتصادی بحرانوں کاخاتمہ ممکن نہیں رہا۔ 
انتخابات ہی قومی وحدت ،یکجہتی ، عوامی اعتماد و یقین کی بحالی کا پائیدار اور جمہوری راستہ ہیں۔ سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے سیاست اور انتخابات میں کھلی مداخلت ، من پسند نتائج کے حصول اور پسندیدہ قیادتوں کو عوام پر مسلط کرنے کا غیر آئینی طریقہ اختیار کیے رکھا، اب یہ عمل بڑی تباہی کا سبب بن گیاہے۔ نام نہاد سیاسی ، جمہوری اور پارلیمانی روایات کی دعویدار جماعتوں نے اپنے آمرانہ غیر جمہوری اور غیر پارلیمانی رویوں سے انتخابات اور ووٹ کے تقدس کو پامال کیا ہے۔ انجینئرڈ انتخابات قومی وجود کے لیے زہر قاتل بن گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن پر ریاستی اورسیاسی دباو ¿ نے اس قومی آئینی ادارے کو مفلوج اور اپاہج کردیا ہے۔ جمہوریت، سیاست اور انتخابی نظام کو دولت اورمنفی پروپیگنڈہ کاکھیل بناکر تباہی کی طرف دھکیل دیا کیاگیاہے۔ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات ، آئین کی مقرر کردہ حدود او رمیقات کی پاسداری سے ہی سیاسی استحکام ممکن ہوسکتا ہے۔ قومی سیاسی قیادت، گورنرزاور نگران حکومتیں نا اہل ثابت ہوئی ہیں جس سے سیاست اور جمہوریت ،اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے متنازعہ اور اختلافی فیصلوں اور طرز عمل کاشکار ہوئی ہے۔ آزمائی ہوئی سیاسی قوتیں ناکام ہیں۔ ملک و ملت کو درپیش مسائل اور بحرانوں کے حل کے لیے تازہ دم ،با اعتماد ، اہل ، دیانت داراور صاحب کردار، خدمت گزار ، آئین و قانون کی پابندقیادت اور جماعت کی ضرورت ہے۔ 
کراچی میں بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کی شاندار کامیابی پرہم اللہ کاشکر اورکراچی کے عوام کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں کی جانے والی مسلسل محنت لائق تحسین اورقابل مبارک بادہے۔ کراچی کے عوام نے شہری مسائل کے حل کے لیے اپنا مینڈیٹ جماعت اسلامی کو دیا ہے ، عوام کامینڈیٹ تبدیل کرنے کا ہر حربہ قومی جرم ہے۔ الیکشن کمیشن عوام کے فیصلہ کا محافظ بنے جماعت اسلامی کی جیت تسلیم کی جائے۔ جماعت اسلامی ہی کراچی کے مسائل کا با اعتماد اور پائیدار حل ہے۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں کامیاب جماعتیں جماعت اسلامی پر اتفاق کرلیں تو کراچی مسائل سے نجات پائے گا اور خوشحال ہوگا۔ 
ملک میں دہشت گردی میں مسلسل اضافہ تشویشناک ہے ،عوام کی جان ومال اورعزت غیر محفوظ ہے۔ بے گناہ انسانوں کا اغوا، اور اغوا برائے تاوان ، بھتہ خوری کے لیے تاجروں اور محنت کشوں کو دھمکیاں ،پنجاب ، سندھ کے کچا کے علاقہ میں ڈاکوراج، حکومت اور سیکورٹی اداروں کی بے بسی بڑا المیہ ہے۔ ٹارگٹ کلنگ میں بھارتی دہشت گردی کا بڑاہاتھ ہے جو ریاست وحکومت کے لئے سوالیہ نشان ہے۔ پشاور ،کراچی ، بلوچستان میں دہشت گردی کے سانحات کے بعد اتحادی حکومت کا اعلان کے باوجود اے پی سی منعقد نہ کرسکنابڑی ناکامی اور بے تدبیری ہے۔ حکومت قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد یقینی بنائے اور بھارتی دہشت گردی کا سدباب کرے۔ بھارت کو عالمی سطح پر بے نقاب کیاجائے۔ حکومت عوام کی جان و مال ،عزت کاتحفظ کرے یا عوام کی جان چھوڑ دے۔ 
بااختیار بلدیاتی نظام ہی عوامی شہری حقوق کا ضامن ہوتاہے۔ حکومتیں با اختیار بلدیاتی نظام کے راستے میں بڑی رکاوٹ بن گئی ہیں۔ شہری حقوق پر دیدہ دلیری سے ڈاکہ زنی کی جارہی ہے۔ پنجاب اور اسلام آباد کے عوام بلدیاتی نظام سے محروم ہیں۔ بلوچستان میں بلدیاتی نظام مفلوج اور خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نظام کو غیر مو ¿ثر بنادیاگیا جبکہ سندھ میں صوبائی حکومت نے بلدیاتی انتخابات پر شب خون مارکر بلدیاتی نظام کو مذاق بنادیا ہے۔ بااختیار بلدیاتی نظام ہی دیہی اور شہری حقوق بحال کرسکتا ہے۔ 

مزیدخبریں