بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے تاحال پاکستان کو قرض دینے کے لیے معاہدہ نہیں کیا جس کی وجہ سے حکومت تشویش کا شکار ہے اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس سلسلے میں امریکا سے بات کی جائے گی۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی امریکی حکام سے آئی ایم ایف سے معاہدے پر بات کی ہے اور اب وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈارامریکی سفیر سے معاہدے پر بات کریں گے۔ حکومت تو یہ تاثر دے رہی ہے کہ آئی ایم ایف تمام شرائط منوا کر دوبارہ سٹاف لیول معاہدے میں بلاوجہ تاخیر کر رہا ہے لیکن بات اتنی سیدھی ہے نہیں جتنا سیدھا بنا کر اسے پیش کیا جارہا ہے۔ سوموار کو فریقین کے مابین ہونے والے رابطوں میں پاکستانی حکام کی جانب سے آئی ایم ایف ٹیم کو زرعی اور ایکسپورٹ سبسڈی کے خاتمے کی رقوم کے استعمال کا طریقہ کار اور جون تک واپس کیے جانے والے قرضوں کی ادائیگی کے بارے میں بتایا گیا۔
دوسری جانب، یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ عالمی ساہوکار ادارے نے پاکستان سے یہ کہا ہے کہ وہ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، قطر اور کثیرالجہتی کریڈیٹرز کی جانب سے 6 ارب سے 7 ارب ڈالرز کی بیرونی فنانسنگ کی توثیق حاصل کرے تاکہ جون 2023ءتک کا خلا پر کیا جاسکے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیرونی سرمایے کی اس یقین دہانی کے بغیر آئی ایم ایف پروگرام کے پائیداری کی کوئی ضمانت فراہم نہیں کی جاسکتی۔ آئی ایم ایف نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ توانائی کے شعبے میں زرتلافی کا مستقل بنیادوں پر خاتمہ کیا جائے۔ اطلاعات کے مطابق، اس سلسلے میں حکومت نے آئندہ مالی سال تک کا وعدہ کیا ہے تاکہ میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز (ایم ای ایف پی) میں تبدیلی پر عمل درآمد کیا جاسکے۔ اسی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اب حکومت امریکا سے بات کرنا چاہ رہی ہے تاکہ وہ آئی ایم ایف کو معاہدہ کرنے کے لیے راضی کرسکے۔
ادھر، پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سنجیدہ معاشی معاملات پر تمام شعبوں میں حل نکالنے کے لیے کام کررہے ہیں۔ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی سفیر نے کہا کہ پاکستان سنگین اہمیت کے حامل معاشی چیلنجز کا سامنا کررہا ہے اور امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان کو مشکل وقت سے نکلنے کا کوئی راستہ ملے۔ ڈونلڈ بلوم نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام بھی اسی معاملے کا ایک حصہ ہے۔ حال ہی میں واشنگٹن میں اعلیٰ سطح کے تجارت و سرمایہ کاری کے مذاکرات مکمل کیے۔ ساتھ ہی انھوں نے اپنے خاص ایجنڈے پر بات کرتے ہوئے کہ پاکستان دیگر ممالک کی طرح انسانی حقوق کے چیلنجز سے نبردآزما ہے، پاکستان کو ان الزامات کو ڈیل کرنا ہوگا۔امریکی سفیر نے مزید کہا کہ پاکستان کے ساتھ اب بھی شراکت دار ہیں، سکیورٹی کے شعبے میں پاکستان کی معاونت کے لیے کام کرتے رہیں گے۔
موجودہ حکمران اتحاد ہو یا کوئی بھی اور جماعت یا گروہ، یہ لوگ کبھی بھی قوم کو پوری بات نہیں بتاتے، لہٰذا قوم یہ جان ہی نہیں پاتی کہ اگر معاملات بگاڑ کا شکار ہورہے ہیں تو ان کے پیچھے اصل اسباب کیا ہیں۔ دو روز پہلے توشہ خانہ کا 21 سالہ ریکارڈ کے منظر عام پر آنے سے یہ پوری طرح واضح ہوچکا ہے کہ یہ لوگ صرف اپنے مفادات کے تحفظ کی حد تک متحد ہیں۔ اسی لیے ایسی قانون سازی کی جاتی ہے جس سے سیاسی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے وابستگان کو فائدے پہنچیں۔ ملک اور عوام کے مسائل ان میں سے کسی کی بھی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ حزبِ اختلاف میں ہوتے ہوئے ان میں سے ہر کوئی ایسے بیانات دیتا ہے جیسے اس سے زیادہ عوام کا ہمدرد اور مونس اور کوئی نہیں ہے لیکن جیسے ہی یہ لوگ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتے ہیں انھیں عوام بھول جاتے ہیں اور پھر یہ اپنی توندیں اور تجوریاں بھرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ ایک لمبے عرصے سے جاری ہے اور قابلِ قیاس مستقبل میں اس کے رکنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔
اسی بات کو سامنے رکھ کر آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے حال ہی میں ایک جرمن ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ امیر طبقے سے ٹیکس وصول کرے اور انھیں دی جانے والی سبسڈیز ختم کی جائیں۔ پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ شاید اس وجہ سے بھی التوا کا شکار ہورہا ہے کہ اب عالمی ساہوکار کو یہ دکھائی دینے لگا کہ ہمارے مقتدر حلقے قرضہ تو ملکی معیشت میں سدھار لانے کے لیے حاصل کرتے ہیں لیکن پھر اس رقم کا بڑا حصہ یہ لوگ اپنے اوپر ہی خرچ کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے مسائل بڑھتے جاتے ہیں۔ اگر ہماری سیاسی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے مختلف دھڑے واقعی اس ملک اور عوام کے ساتھ مخلص ہوں تو ممکن ہے ہمیں معیشت کو سنبھالنے کے لیے کسی بیرونی مدد کی ضرورت ہی پیش نہ آئے کیونکہ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ مذکورہ طبقات کے پاس اتنی دولت موجود ہے کہ وہ اس کا چند فیصد دے کر ہی ملک کو آئی ایم ایف جیسے اداروں سے نجات دلا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے جس ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہے وہ شاید ان میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔ یہ عوام سے ضرور کہتے ہیں کہ وہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے قربانی دیں لیکن آج تک طاقتور طبقات میں سے کسی نے بھی قربانی نہیں دی۔