صحت کارڈ کی بجائے مزید ہسپتال بننے چاہیے تھے

Mar 15, 2023

عیشہ پیرزادہ

ہیلتھ انفراسٹرکچر بہتر کرنے کے لیے
وزیر صحت پنجاب پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کا نوائے وقت کو خصوصی انٹرویو
غیر تجربہ کار دائی کی وجہ سے زچہ بچہ خطرے میں رہتے ہیں،سکلڈ برتھ پروگرام زیر غور ہے

پرائمری انجیومانیٹرنگ سسٹم لانچ ،پورے پنجاب میں 50 سے زائد مقامات پر انجیو پلاسٹی کر رہے ہیں

عیشہ پیرزادہ وزیر صحت پنجاب پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کیساتھ

عیشہ پیرزادہ
eishapirzada12hotmail.com
 بڑھتے ہوئے معاشی دباؤ،وسائل کی کمی اور بدانتظامی کے باعث پاکستان میں صحت کا نظام بھی گرہن زدہ ہے۔ اگرچہ گزشتہ دہائیوں کے دوران گڈگورننس کے سبب بہت سی بہتری تو آئی ہے، لیکن دیگر مسائل کیساتھ ساتھ بچوں اور خواتین میں اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔ مریضوں کی صحت کی بحالی،عمدہ علاج اور خواتین،بچوں کی اموات کا سلسلہ روکنے کیلئے نظامِ صحت کو ایک مدت سے کسی مسیحا کا انتظار تھا۔ یہ مسیحا پنجاب میں نگران حکومت کے قیام کے سبب ملک و قوم کو میسر آگیا ہے۔ ایک محنتی اور جفاکش نگران وزیراعلٰی پنجاب محسن نقوی نے اپنی ٹیم میں کئی دہائیوں سے سرکاری ہسپتالوں میں عوامی خدمت کا ریکارڈ توڑنے والے، نیک نام پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کو نگران وزیرصحت کی ذمہ داری دیکر سسکتے بلکتے نظامِ صحت کی ڈھارس بندھانے کا موقع فراہم کیا ہے۔اس حقیقی مسیحا کی پالیسیوں کی وجہ سے نگران حکومت کے مختصر دور میں شہریوں کو ہسپتالوں میں ریلیف ملنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔جوآنیوالی حکومت کیلئے مشعل راہ ہے۔ آئیے پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم سے جانتے ہیں کہ وہ نظام صحت کی بہتری اور شہریوں،مریضوں کی دیکھ بھال کیلئے کیا اقدامات اٹھارہے ہیں۔
نوائے وقت :خدمت خلق کے سفر کاآغاز کیسے ہوا؟
  پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم:جب میں چھوٹا تھا تومیری والدہ اکثر بیمار رہتی تھیں، شوگر بلڈ پریشر کی مریضہ تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کی اولاد میں سے کوئی بچہ ڈاکٹر ضرور بنے۔میں سب سے چھوٹا تھالہذا تمام امیدیں مجھ سے ہی وابستہ تھیں۔یہی وجہ ہے کہ ماں کی خواہش پوری کرنے کے لیے میرا یہ سفر عبادت بن گیا۔میری ابتدائی موٹیویشن  میری والدہ  ہیں۔
 نوائے وقت :پنجاب کی عوام کی فلاح کے لیے کیا انیشیٹوز لیے جا رہے ہیں؟
میں ایک غیر سیاسی نگراں سیٹ اپ کا حصہ ہوں،جس کا کام صاف شفاف الیکشن کر وانا ہے۔ چونکہ میں ایک ڈاکٹر ہوں تو مریضوں کے مسائل سے خاصاآگاہ ہوں۔
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ امیروں کی تمام بہتر سے بہتر سہولیات تک رسائی ہے جبکہ متوسط اور غریب طبقہ ادوایات، ہسپتال، بہترین میڈیکل کیئر سے محروم ہے۔
 بطور نگراں وزیرصحت پنجاب میرا خواب ہے کہ وہ عام شہری جو ریڑھی پر فروٹ بیچ رہا ہے یا سائیکل کو پنکچر لگا رہا ہے اس تک پہنچا جائے۔مثلا ہماری شرح اموات کا بڑا حصہ ہارٹ اٹیک کے باعث ہے۔آپ دیکھتے ہیں کہ اگر یہ ہارٹ اٹیک کسی منسٹر یا بزنس مین کو آئے تو تمام صحت کے اداروں کے دروازے کھل جاتے ہیں، اسے بہترین میڈیکل کیئر دی جاتی ہے۔
ہم عام آدمی کو ریلیف دینے کے لیے ایسا سسٹم بنا رہے ہیں جو دور حاضر کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ یعنی دنیا بھر میں دل  کے مریضوں کو میڈیکل کی جو سہولیات دی جارہی ہیں وہ ہم اپنے لوگوں کو بھی دیں۔ یعنی اگر کسی کو ہارٹ اٹیک ہورہا ہو یا ہو چکا ہو، تو اس کی بروقت بند نالی کھولی جائے۔انجیو گرافی کر کے انجیو پلاسٹی کی جائے۔اس طرح دل کا ایک حصہ مرنے سے بچ جائے گا۔میںنے نگراں وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی کو بھی یہ بتایا ہے کہ  الحمد للہ رات دن ایک کر کے  پورے پنجاب میں 50 سے زائد مقامات پر انجیو پلاسٹی  کر رہے ہیں۔پہلے یہ ہوتا تھا کہ دوپہر دو ،تین بجے انتظامیہ مشینیں بند کر کے چلی جاتی تھی لیکن اب 24 گھنٹے کام کیا جا رہا ہے۔
نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کی ہدایت پر 9 ہسپتالوں میں دل کے مریضوں کے لئے فوری انجیوگرافی و سٹنٹنگ کی سہولت میسر کر دی گئی ہے۔ دل کے مریضوں کے بروقت علاج کو یقینی بنانے کیلئے فول پروف مانیٹرنگ کا سسٹم تیار کیاگیاہے۔محسن نقوی نے پرائمری انجیومانیٹرنگ سسٹم لانچ کردیا ہے۔پہلے مرحلے میں 9سرکاری ہسپتالوں میں دل کے مریض کا فوری اورمفت علا ج ہوگا۔اس کے علاوہ ادویات کے مسائل تھے کہ مقامی خرید میں بہت ساری خامیاں تھیں۔ان خامیوں کو دور کیا۔ بہت ساری ادویات اب مفت فراہم کی جارہی ہیں اور اگر کسی کو باہر سے دوائی منگوانی پڑتی ہے تو وہ دوائی ہم خود منگوائیں گے۔
اس کے علاوہ ٹیسٹ بھی باہر سے کروانے بند کر دیئے ہیں۔ٹیسٹ کی سہولت ہسپتال کے اندر ہی موجود ہے۔ سر کاری ہسپتالوں کی صفائی پر بہت توجہ دی۔
 عطائیوں کے بائیکاٹ کے لیے مہم چلا ئی ہے، کیونکہ دانت تو دو تین سو روپے میں نکل جاتا ہے لیکن ساری عمر کے لیے ہیپا ٹائٹس بی اور سی روگ بن جاتا ہے۔
زچہ بچہ کی اچھی صحت کے لیے بہت سارے اقدامات اٹھائے ہیں۔ہمارے ہاں دائی کا رواج عام ہے جو زچہ اور بچہ دونوں کے لیے خطرناک ہے۔لہذا اس سلسلے میں ہم سکلڈ برتھ  پروگرام شروع کرنا چاہتے ہیں لیکن کچھ وقت لگے گا کیونکہ کسی حد تک ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔الیکشن کمیشن ٹرانسفرز، بھرتیاں اور پروموشن نہیں کرنے دیتی۔ یوں ہمارا کام یہی رہ جا تا ہے کہ اس وقت جو پروجیکٹ چل رہے ہیں انہیں مزید بہتر کیا جائے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں کیا، دنیا پھر میں ہیلتھ کیئر سسٹم گورنمنٹ اکیلے نہیں چلا سکتی۔کمیونٹی کو بھی اپنا حصہ ڈالنا پڑتا ہے۔ الحمد للہ ہم نے بہت سارے مخیر حضرات سے بہت سارے کام کر وائے ہیں۔چاہے ڈائلسز ہوں، مہمان خانہ ہو یا مریضوں کے لواحقین کو کھانا کھلانا ہو۔ہم چیرٹی کلینکس بنا رہے ہیں۔ اس پروگرام کا نام ’’آپ کے کلینک‘‘ ہے۔  لاہور میں اس نوعیت کا ایک کلینک کھل بھی چکا ہے جو مکمل طور پر مخیر حضرات کی فنڈنگ سے چل رہا ہے۔یہاں پیچیدہ امراض کیساتھ غریب ترین لوگ آتے ہیں جن کا فری علاج کیا جاتا ہے۔ ان کے ٹیسٹ اور ادوایات بھی فری ہیں۔اکثر لوگ حیران ہوتے ہیں کہ ادارہ کیسے چل رہاہے تو میں انھیں یہی کہتا ہوں کہ’’ By Allah ہے اور  For Allah  ہے۔ہم سفید پوش  لوگوں کو ڈھونڈتے ہیں جو اپنی ضروریات کے لیے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ ایسے لوگ یہاں آئیں، یہ ان کے لیے ہے۔
یہ جگہ اللہ کی ہے ، الرافع اس جگہ کا نام ہے۔جب اللہ اسے چلانے کا فیصلہ کر لے تو ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس نے ہمیں اس کام کے لیے چنا ہے۔
نوائے وقت:بڑھتی آبادی کیساتھ کیا ہسپتالوں میں اضافہ وقت کی اہم ضرورت نہیں ہے؟
 پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم:جی یہ بہت زیادہ اہم ضرورت ہے۔آبادی کے لحاظ سے سنہ 2045  میں پاکستان تیسرا بڑا ملک بننے جا رہا ہے۔
امراض کی بھرمار اور وسائل کی کمی ہے۔ ہمارے ہر دوسرے پاکستانی کو 40 سال کی عمر میں بلڈ پریشر ہے، 27 فیصد کو شوگر ہے۔
ہیپاٹائٹس بی اور سی، ملیریا، ڈینگی کے بے تحاشہ مریض سامنے آتے ہیں۔بہترین ہیلتھ کیئر کا نعرہ کھوکھلا نعرہ بن گیا ہے جو الیکشن کے نزدیک آنے پر ہر بار ہم سنتے ہیں۔ لیکن الیکشن جیت جانے پر اس مسئلے کی جانب کسی کی توجہ نہیں رہتی۔تعلیم اور صحت کا شعبہ  سب سے زیادہ نظر انداز ہوتا ہے۔ 
 نوائے وقت :صحت کارڈ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔عام آدمی کو اس کا کتنا فائدہ ہوا؟
 پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم: میں یہی کہوں گاکہ بجائے ہم اپنا ہیلتھ انفراسٹرکچر بہتر کرتے، مزید ہسپتال بناتے جس میں مفت علاج ہوتا، ہم نے اربوں روپے ایک کارڈ پر لگا دیئے۔اگر میں فیصلہ ساز ہوتا تو میں مزید ہسپتال بناتا۔یہ کارڈ امیر اور غریب دونوں استعمال کر رہے ہیں۔ حالانکہ امیروں کو اس کارڈ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کارڈ صرف  مستحق افراد کے لیے مختص ہونا چاہیے تھا۔میرے پاس مرسیڈیز پر لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا ہیلتھ کارڈ سے علاج کر دیں۔یہ کارڈ صرف ان لوگوں کے لیے ہونا چاہیے تھا جو احساس پروگرام یا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے کوالیفائی کرتے ہیں۔

مزیدخبریں