تارکینِ وطن واپس کیوں آئیں؟

Mar 15, 2023

مطلوب وڑائچ


 گلوبل ویلج    
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے پاکستانیوں میں ایک کریز پایا جاتا ہے۔ جب کوئی اوورسیز پاکستانی واپس آتا ہے تو اس کی طرف دیکھ کر دیگر پاکستانیوں میں بھی پاکستان سے باہر جانے کی خواہش سامنے آ جاتی ہے۔ کیونکہ باہر سے آنے والے لوگ جس طریقے سے پاکستان میں اپنا مکان بناتے ہیں،اپنا کاروبار بڑھاتے ہیں اور اپنے رشتے داروں کے لیے تحفے و تحائف لاتے ہیں ۔یہ اس طرح کے پاکستانیوں کے لیے پاکستان سے باہر جانے کی بہت بڑی ترغیب ہوتی ہے۔ باہر جانے کے لیے پھر پاکستانی کیا کچھ نہیں کرتے، کچھ زیورات توکچھ زمین جائیداد بھی بھیج دیتے ہیں، ادھار بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ پاکستان سے باہر جانے کے لیے بہت سے قانونی راستے ہیں لیکن کچھ لوگ غیرقانونی راستے بھی اختیار کرتے ہیں۔ یہ مافیا ایجنٹ ہے ۔ وہ لوگوں کو کئی سہانے خواب دیکھا کر پاکستان سے باہر لے جانے کا جھانسا دیتے ہیں اور پھر کشتیوں کے ذریعے کچھ کو یورپ سمگل کر دیا جاتا ہے ۔ بہت سے پاکستانی یونان، اٹلی، جرمنی کے ساحلوں پر کشتیوں کے ذریعے جاتے ہوئے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کئی کو ترکی اور ایران کے بارڈر پر بھی موت کا سامنا کرنا پڑجاتاہے۔ جو بچ بچا کر دوسرے ممالک پہنچ جاتے ہیں وہ پھر محنت ان کو کرنا پڑتی ہے ۔ دن رات محنت ومشقت کرکے وہ پاکستان میں کوئی کاروبار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کوئی مکان خرید لیتے ہیں، کوئی پلاٹ خرید لیتے ہیں، کئی مکان بنا کر اسے کرایہ پر چڑھا دیتے ہیں اور پھر اُن کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے اس کی میں خود بھی ایک زندہ مثال ہوں۔ کرایے پر دیئے گئے گھروں پر قبضہ کر لیا جاتا ہے۔ پلاٹوں پر بھی اسی طریقے سے قبضے ہو جاتے ہیں۔ اور پھر ہمارا عدالتی نظام وہ بندے کی آتما کو رول کر رکھ دیتا ہے۔ نسلوں تک فیصلوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ ساحلوں پر مرنے سے بچ جاتے ہیں وہ اس طریقے سے پاکستان میں آ کر لُٹتے ہیں، ان کو ایک طرح سے نہیں کئی طرح سے لوٹا جاتا ہے۔ اور پھر یہ وہ پاکستانی ہیں جو اپنے ملک کے لیے، اپنے وطن کے لیے محنت کرکے ایک ایک پیسہ جوڑ کر پاکستان بھیجواتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت کے دوران سالانہ ترسیلات زر کی مالیت 30ارب ڈالر تھی جو نئی حکومت کے آنے کے بعد کم ہوتی ہوتی 14ارب ڈالر تک رہ گئی ہے۔ کیوں رہ گئی ہے ،ایک تو ڈالر کا اس حکومت کی طرف سے مصنوعی طور پر بندوبست کیا گیا اور دوسرا اس حکومت کی طرف سے آتے ہی اقتدار سنبھالنے کے تیسرے چوتھے روز ان کی طرف سے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا دیا گیاحق وہ ختم کر دیا گیا۔عمران خان کی حکومت کی طرف سے اوورسیز پاکستانیوں کو اظہار تشکر کے طور پر ووٹ کا حق دیا گیا تھاکیونکہ یہ اوورسیز پاکستانی ہر سال پاکستان کو تیس ارب ڈالر سے زیادہ کی ترسیلات روانہ کرتے تھے ۔یہ پاکستان کی 82 فیصد ضروریات پوری کرنے کے برابر ترسیلات تھی۔
اگلی بات ہم کر لیتے ہیں کہ اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ پاکستان میں کیا گزرتی ہے۔ یہاں ان پر ایک نظر رکھی ہوتی ہے، ان کو لوٹنے والوں کی طرف سے ،جیسے ہی ایئرپورٹ پر اترتے ہیں کسٹم والے اوورسیز پاکستانیوں کے کپڑے تک اتارنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ کسٹم سے جان چھوڑتی ہے تو قلی وہ اپنا ہاتھ دکھانے لگتے ہیں۔ وہاں سے پھر جب ایئر پورٹ سے نکلیں تو ڈرائیور اور رینٹ اے کار والے اور پھر راستے میں بھکاری وہ پاکستان آنے والے لوگوں کو کچھ نہ کچھ دینے پر مجبور کر دیتے ہیں۔بے شمار دوستوں کے ساتھ یہ حادثات ہوتے ہیں کہ ایئرپورٹ سے گھر کے راستے درمیان سرکاری اہلکار بن کر لوٹ لیا جاتا ہے۔ جب بندہ گھر پہنچتا ہے تو پھر دوست رشتے دار وہ مانگنے والے آ جاتے ہیں۔لیکن وہ بھی شوقیہ آپ سمجھ لیں، پیسے مانگتے ہیں، ادھار مانگتے ہیں، روٹی کے لیے ہرگز نہیں، آسائش کے لیے، کسی کے بیٹے نے موٹر سائیکل لینے ہوتی ہے پیسے کم پڑے ہوتے ہیں۔ کسی نے گاڑی ٹھیک کروانی ہوتی ہے، کسی کی دکان میں کچھ پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو پھر یہ باہر سے آنے والوں کو اپنی اپنی ضرورت بتاتے ہیں اور کچھ نہ کچھ دینے کے لیے ان کو مجبور کرتے ہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا ان کی خواہشات بھی اوورسیز پاکستانی پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر ایسا لمحہ آتا ہے کہ یہ پاکستانی دو مہینے کی، ایک مہینے کی یا کم و بیش اتنی چھٹی آتے ہیں ۔ آدھی چھٹی گزرتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ اس کے پاس جو پیسے تھے وہ اب ادھار میں جا چکے ہیں۔ یا کوئی جائیداد بنا لی جاتی ہے، وہ جائیداد جس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اُس پر کب قبضہ ہو جائے،کب فراڈ ہو جائے۔ تو یہ ہوتا ہے اوورسیز پاکستان کے ساتھ ۔
یہاں میں چلتے چلتے اپنے ساتھ گزرنے والا واقعہ بھی بیان کرنا چاہتا ہوں۔ گذشتہ مہینے میرا بیٹا اور میری اہلیہ کینیڈا سے پاکستان آئے تھے۔ دونوں الگ الگ آئے اور الگ الگ واپس گئے۔بیٹا جب پاکستان سے جانے لگا تو عملے کی طرف سے ایئرپورٹ پر کہا گیا کہ آپ یہ والا ہینڈ کیری نہیں لے جا سکتے۔ بیٹے نے ان کو بتایا کہ اس میں ادویات ہیں اور کچھ نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ آپ اس کے ساتھ سفر نہیں کر سکتے۔بیٹے ظاہر ہے نوجوان تھا ،نوعمر تھا،پریشان ہوا انہوں نے کہا کہ اس کا بھی ایک علاج ہے آپ تھوڑے سے پیسے دے دیں اور میرے بیٹے سے انہوں نے ڈیڑھ سو ڈالر بٹور لیا اور جو ہینڈ کیری وہ اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا تھا اس کی پھر اجازت دے دی گئی۔ جب میری اہلیہ پاکستان سے واپس جانے لگیں تو ان کا بھی ہینڈکیری کا مسئلہ بنا لیا گیا ،کہا گیا کہ آپ لیپ ٹاپ کے ساتھ سفر نہیں کر سکتیں یہ ہینڈ کیر ی میں نہیں جا سکتا۔ میری اہلیہ نے وہاں پر احتجاج کیا ،لوگ اکٹھے ہو گئے تو ان کو پھر پاکستان کے ایئرپورٹ سے جانے کی اجازت دے دی گئی۔قارئین میں یہاں سے چند روز میں جانے والا ہوں ،پاکستان آیا ہوں۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ مجھے ایئرپورٹ کے پُل صراط  سے کس طرح سے گزرنا پڑے گا۔ میرا ساتھ ساتھ یہ سوال بھی ہے کہ ہم لوگ پاکستان کیوں آئیں ، کیا لُٹنے پُٹنے کے لیے آئیں، کیا اپنی سبُکی کرانے کے لیے آئیں۔ کینیڈا میں چندماہ قبل میرا کڈنی ٹرانسپلانٹ کا میجر آپریشن ہوا۔جس پر کینیڈین ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے تقریبا پونے دو ملین ڈالر خرچے ہوئے۔ سارے کے سارے اخراجات میری ہیلتھ انشورنس اورکینیڈین حکومت نے ادا کیے کیونکہ کینیڈا میں علاج سب کے لیے فری اور ایک جیسا ہے۔ کیا پاکستان کوئی شخص ایسا سوچ سکتا ہے۔ عمران خان کی طرف سے صحت کارڈ جاری کیا گیا۔ دس لاکھ ایک خاندان کے علاج کے لیے رکھا گیا ۔ اس حکومت کی طرف سے اس کو بھی بند کرنے کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ آخر میں سوال پھر وہی ہے کہ ہم پاکستان میں آئیں تو پھرکیوں آئیں، لُٹنے پُٹنے کے لیے، اپنی سُبکی کے لیے۔ میں نے ترسیلات کی بات کی ہے کہ اب صرف 13یا 14ارب سالانہ پاکستان آتے ہیں ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس طریقے سے مصنوعی طور پر ڈالر کو مستحکم رکھنے کی کوشش کی گئی، اسے کوشش نہیں بلکہ آپ سازش کہیں تو زیادہ بہتر ہے۔وہاں سے ہنڈی کے لیے ذریعے آپ کو جتنے پیسے ملتے ہیں بینک ریٹ اس سے کوئی پندرہ بیس فیصد کم دیتا ہے۔ اس لیے لوگ بینک کے ذریعے کم ،ہنڈی کے ذریعے پاکستان میں پیسہ زیادہ بھیجتے ہیں۔ یہ بھی ترسیلات میں کمی کی ایک وجہ ہے۔
میری حکومت پاکستان ،پاکستان کسٹم اورانٹیلی جنس کو مشورہ ہے کہ اگر آپ پاکستانیوں کے ساتھ نارواسلوک اسی طرح جاری رکھا گیا تو ایک دن آئے گا کہ پاکستان سے جانے والی فلائٹس تو بھری ہوں گی لیکن پاکستان آنے والی فلائٹس آپ کو خالی ملیں گی۔

مزیدخبریں