یوپی یونین سے جی ایس پی پلس اسٹیٹس رکوانے کی کوشش ملک دشمنی ہے

Mar 15, 2024

فاروق مرزا


تحریر: فاروق مرزا ا امریکہ: زور خیال
_________________

نئے منتخب وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڈ نے ایک پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کی طرف سے GSP+ اسٹیٹس ختم کروانے کی کوشش کو پاکستان کے خلاف سازش قرار دیا ہے،اس سے قبل تحریک انصاف کی طرف سے آئی ایم ایف کو ایک خط لکھا گیا،جس میں پاکستان کی امداد کو مشروط کرنے کی درخواست کی گئی تھی،جس پر نگران حکومت کے علاوہ تمام سیاسی حلقوں نے پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کرنے کی ایک سازش قرار دیا تھا، اسی طرح ایک اور معاملے میں تحریک انصاف نے اوورسیز پاکستانیوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے اور 14 مارچ کو آئی ایم ایف کے واشنگٹن ڈی سی میں ہیڈ کوارٹر کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ رکھا ہے۔جو ایک جعلی تنظیم بنا کر اعلان کیا گیا ہے، جس کا مقصد آئی ایم ایف پر پاکستان کے خلاف دباو¿ ڈالنا ہے،تاکہ آئی ایم ایف کا امدادی پیکج کومشروط کیا جائے یا پھر رکوایا جائے، تحریک انصاف ایک طرف پاکستان میں جمہوری عمل کا حصہ بن چکی ہے اورباقاعدہ انتخابات میںشمولیت اختیار کی، اسمبلی میں حلف اٹھائے، وزیراعظم اور صدر کے لیے اپنا امیدوار کھڑا کیا اور باقاعدہ طور پر کے پی کے میں اپنی حکومت قائم کی،اس کے باوجود وہ انتخابات کے نتائج کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے اور ملک گیر احتجاج کرنے جا رہی ہے،اور ہر مقام پر حکومت کو چلتے رہنے سے روکنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔
اوورسیز پاکستانیوں کو استعمال کر کے آئی ایم ایف کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے مظاہرہ ایک ریڈ لائن کراس کرنے کا عمل نظر آتا ہے،بظاہریہ مظاہرہ ایک جعلی تنظیم کے نام پہ کیا جا رہا ہے،مگر شہباز گل اس مظاہرے کو منظم کرنے میں پیش پیش ہیں، جب میں نے چیئرمین پی ٹی آئی گوہر خان سے تحریری طور پر پوچھا کہ آئی ایم ایف کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے امریکہ میں مظاہرہ کرنے والے کیا پی ٹی ائی کے لوگ ہیں؟ تو انہوں نے خاموشی اختیار کی اور جواب نہیں دیا اس سے قبل پاکستان میں جب میں نے ان سے پریس کانفرنس میں سوال کیا کہ اوورسیز پاکستانی جو امریکہ میں پی ٹی ائی کے نام پر مظاہرہ کرتے ہیں،افواج اور اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کر رہے ہیں،کیا وہ آپ کے لوگ ہیں،یا کوئی اور لوگ ہیں؟ جن کا کام آپ کے کھاتے میں پڑتا ہے تو بیرسٹرگوہر خان نے فوری جواب دیا کہ وہ پی ٹی آئی کے لوگ نہیں ہیں، نہ ہی ہمارا ان کے ساتھ تعلق ہے اور نہ ہی ہم نے ان کو اس چیز کی اجازت دی ہے۔ 
 وکلاءکی بڑی ٹیم جو عمران خان کو بچانے میں لگی ہوئی تھی کوئی خاص قانونی جنگ نہ لڑ سکی اور بالآخر عمران خان ان کی ان افیشینسی کی وجہ سے پابند سلاسل ہو گئے، وکلاءعدالتوں کو دھمکاتے رہے اور عدالتوں کا احترام بھی نہیں کیا۔ حتیٰ کہ ان کے ایک ایم این اے جو حال ہی میں منتخب ہوئے ہیں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کیا تھا، بعد میں بیرسٹر گوہر نے کہا کہ عمران خان کی طرف سے ا یسا کوئی اجازت نہیں ہے، یہی وکلا ءاب پارٹی کے مالک بن بیٹھے ہیں اور یہی وکلا ایم این اے اور ایم پی اے بن کے ٹی وی پروگراموں کی زینت بن چکے ہیں۔ انہوں نے عمران خان کو جیل سے نکالنے میں کوئی خاص مدد نہیں کی، بلکہ وہ خود اس کے بینیفیشری بن کے سیاسی عمل کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان میں سے بیشتر وکلاءوہ بھی ہیں جب عمران خان کو سزا سنانے کا عمل جاری تھا تب وہ وکلا ءپنے حلقوں میں اپنی الیکشن کمپین کر رہے تھے۔ 
 یہ وہ وقت تھا جب وہ اپنے چیئرمین کے ساتھ یا اپنے کلائنٹ کے ساتھ کھڑے ہوتے اور اگر وہ عدالتوں میں بھی گئے تو ان کے پاس پراپر ڈیفنس میکنیزم نہیں تھا،بلکہ وہ عدالتوں کے ساتھ لڑتے جھگڑتے رہے اور بعض دفعہ تو توہین عدالت بھی کرتے رہے۔ پاکستان میں ایک سیاسی عمل کے بعد صوبائی اور وفاقی حکومتیں قائم ہو چکی ہیں اور پارٹی سربران ان کے بچے اور بھتیجے وفاقی اور صوبائی حکومتیں سنبھال چکے ہیں، سیاسی عمل کا آغاز ہو چکا ہے، صدر پاکستان بھی حلف اٹھا چکے ہیں اور ملک میں اجتماعی طور پر استحکام بھی نظر اتا ہے۔ اگر سیاسی عمل جاری رہا اور ملک میں استحکام بھی رہا تو ملک ترقی کرے گا۔ قومی خزانہ بھی بھر جائے گا، قرضے بھی اتر جائیں گے۔ سیاسی جماعتوں کو اس بار جس طرح فائدہ دیا گیا ان کو واپس ملک کو کچھ ضرور لوٹانا چاہیے، پارٹی سربران کو چاہیے کہ وہ یہ سوچیں کہ آئندہ 10 سالوں میں شاید وہ زندہ نہ رہیں، ان کی اولادیں اس ملک کا نظام سنبھالیں گی جس طرح وہ سنبھال چکی ہیں۔ انہیں اپنی اولادوں اور اپنے رشتہ داروں کو جو حکومتی امور چلا رہے ہیں ان کی سیاسی تربیت اس طریقے سے کرنی چاہئے تاکہ وہ عدلیہ،اداروں اور عوام کی امنگوں کا خیال رکھیں۔ 
 اپنی تمام صلاحیتیں عوامی خدمت میں لگا دیں، ان کو اپنی اولادوں کو یہ بھی بتانا پڑے گا کہ اب جب کہ وہ اقتدار سنبھال چکی ہیں تو ان کو اپنے اپنے فونوں سے دوسرے سیاسی اور اپنے حریفوں کی ویڈیوزبھی ڈیلیٹ کر دینی چاہییں، ان کو اپنا مائنڈ سیٹ ایسا بنانا چاہیے کہ آئندہ وہ کبھی بھی سائبریاکسی بھی ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا استعمال نہ کریں، اس وقت ملک کو جس طرح معاشی اور اخلاقی اور سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے ان کو فوری طور پہ مندرجہ ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں استحکام رہے۔ 
پہلے مرحلے میں سیاسی پارٹیاں فوری طور پر میثاق جمہوریت پر دستخط کریں اور پارلیمنٹ کا وقار بحال کریں،ایسے بل بنائیں جن پر گھنٹوں بحث ہو اور اس میں عوامی رائے شامل ہو، پھر اجتماعی مشاورت سے اچھے بل لائے جائیں، تاکہ ملک کی انٹرنیشنل لیول پہ عزت ہو، ایک جمہوری ملک کے طور پر پاکستان کا وقار بحال ہو۔
دوسرے مرحلے میں حکومت کو پرائیویٹائزیشن کا عمل تیز کرنا چاہیے اور میرٹ پر انٹرنیشنل لیول پر اشتہارات دے کر مستحکم پارٹیوں کو بلایا جائے، میرٹ پر مختلف ادارے ان کے حقوق بیچیں، جس سے پاکستان کے اندر ریوینیو آئے اور وہ ادارے جو بیکار ہیں یا جن کی ضرورت نہیں ہے اور قومی خزانے پہ بوجھ ہیں ان کو بھی پرائیویٹائز کیا جائے۔
تیسرے مرحلے میں فارن آفس میں جو بے جا ترقیاں اور بھرتیاں کی گئی ہیں، جو مختلف ممالک میں ڈپلومیٹک مشن ہیں، ان میں لوکلز کو رکھا گیا ہے، جو خاص طور پہ نادرہ آئی ڈی کارڈز، ویزا اور اس کے علاوہ پاسپورٹ سروسز کو آن لائن کر دیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود مختلف سفارتخانوں میں جس طرح امریکہ اور کینیڈا کے اندر سفارتخانوں میں بھی لوکلز اور نادرہ کا جوعملہ ہے وہ بیکار تنخواہیں لے رہا ہے، جبکہ یہ تمام سروسز آن لائن اسلام اباد سے مانیٹر کی جا رہی ہیں اور دی جا رہی ہیں فارن آفس فوری طور پر اقدامات کرے اور سفارت خانوں سے اضافی عملے کو واپس بلایا جائے، جس سے پاکستان کو لاکھوں ڈالروں کا فائدہ ہوگا۔
چوتھے مرحلے میں زرعی پیداوار اور آئی ٹی کے شعبے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ سائبر اور ڈیجیٹل پورٹلز پر پاکستان کی مصنوعات کی خروید و فروخت ہو، آئی ٹی کی سروسز انٹرنیشنل لیول پہ ہمارے نوجوانوں کو دیں، حکومت ان نوجوانوں کاسا تھ دیں اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے، جس سے لاکھوں ڈالر پاکستان کے اندر آئیں گے۔آئی ٹی کے شعبے میں پاکستان کے لیے انٹرنیشنل لیول پہ بہت بڑی مارکیٹ موجود ہے، اگر حکومت آئی ٹی سیکٹر اور زرعی سیکٹر کو فروغ دے گی تو ملک ترقی کرے گا۔
پانچویں مرحلے میں ٹریڈ اور ڈیویلپمنٹ کے لیے انڈسٹری بحال کی جائے،اور ٹریڈ یونینز اور چیمبرز کو ٹاسک دیے جائیں تاکہ وہ پاکستان کے لیے عالمی سطح پر منڈیاں تلاش کریں اور پاکستان کی مصنوعات بھیجیں اس کے علاوہ ٹریڈ منسٹرز جو مختلف سفارت خانوں میں ہیں ان کو فعال کیا جائے، اور ان کو بھی ٹاس دیے جائیں تاکہ وہ انٹرنیشنل لیول پہ پاکستان کی مصنوعات کو فروغ دینے میں اپنا اہم کردار ادا کریں 
 ہمسایہ ممالک کے ساتھ ٹریڈ کی جائے، پاکستان کی زراعت کو فروغ دیا جائے اور جو بند انڈسٹری ہے اس کو کھولا جائے، انڈسٹری کو سہولیات دی جائیں تاکہ وہ پروڈکشن کریں اور پاکستان کا جو مال ہے وہ باہر منڈیوں میں جائے، افواج پاکستان اور اداروں کے خلاف سیاسی پارٹیاں اپنے سائبر ونگ بند کر دیں، اداروں اور افواج کا احترام کریں، افواج پاکستان کی ملک کے لیے قربانیوں کو سراہیں۔ عدلیہ کے خلاف بیانات بند کریں، عدلیہ کے خلاف انٹرنیشنل لیول پر سائبر اور ڈیجیٹل پورٹل پر ٹرولنگ بند کریں، سیاسی حلقے تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کریں اور ان کی شکایت بھی سنیں، عمران خان کو قائل کریں کہ وہ سیاسی عمل کا حصہ بن کر اپنی پارٹی کو منظم کریں۔ عمران خان کو بھی اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، حکومت مذاکرات کے ذریعے ان کی سزاو¿ں کو کم کرے یا پھر ان کے جھوٹے کیسوں کو ختم کر کے ان کو ریلیف دے تاکہ وہ بھی سیاسی عمل کا حصہ بنے اور پاکستان کی ترقی میں شامل ہو جائیں

مزیدخبریں