تحریر جاوید اقبال بٹ مدینہ منورہ
سستی اور بغیر نفع نقصان سپر مارکیٹ بنانے کہ لئے ایک تجویز پیش کر رھا ھوں ۔اورسیز پاکستانی 01 ڈالر کے مساوی ھر ماہ رقم جو سالانہ 12 ڈالر بنتی ھے جبکہ 01 کروڑ بیرون ملک تارکین وطن سمندرپار اباد ھیں اور وطن سے بے حد محبت بھی کرتے ھیں ان سے گزارش سفارش ھے میری تجویز کو عملی جامہ پنہا کر پاکستان سفید پوش اور مہنگائی سے پسی عوام کو سستءاشیا کا مستقل انتظام ھو سکتا ھے اورسیز پاکستانی 01 ڈالر اس فنڈ میں ماھانہ جو سالانہ 12 ارب ڈالر بنتی ھے جبکہ بیرون ملک محتاط اندازے کے مطابق پاکستانیوں کی تعداد ایک کروڑ ھے جو ماھانہ 1 کروڑ ڈالر اور پاکستانی 3 ارب روپیہ بنتی ھے۔
اور سالانہ 36 ارب پاکستانی رقم بنتی ھے۔۔۔اس رقم سے بغیر نفع نقصان اورسیز پاکستان اخوت سپر مارکیٹ
کے نام سےسپر مارکیٹ مختلف شہروں میں بنائیں جہاں پر بڑی کمپینوں فیکڑیوں کی پراڈکٹ کھانے پینے پہننے کی اشیا غرص ضرویات زندگی کا سامان ایک مال مارکیٹ میں ھوتا ھے جو عوام کو بغیر نفع کے سپر مارکیٹ سے خریداری کریں جو ظاھر ھے معیاری اور اعلی اور سستا ترین ھوگا اگر اورسیز 03 سال تک فی کس 12 ڈالر سالانہ اور ایک ڈالر ماھانہ کہ مساوی رقم جو بنے گی وہ تقریبا 100 ارب روپیہ سے پورے پاکستان برانچ کھل جائیں گی تو اس سے عوام کو سستی اشیا عزت وقار کے ساتھ ملے تو پھر یہی رقم سے کاروبار چلتا رھے تو زخیرہ اندوز اور مہنگے دام سے نجات ملے گی اور اخوت فاونڈیشن کی ساکھ پاکستان سمیت دنیا میں اچھے الفاظ سے جانی جاتی ھے
اگر یہ رقم اخوت فاونڈیشن کا بانی ڈاکڑ امجد ثاقب جو بغیر سود کے چھوٹے قرضے بغیر ضمانت پر کاروبار دیتے ھیں اور دوسرے رفاعی کام کے اخوت یونیورسٹی بھی بنائی جو کمپیوٹر کے 06 ماہ کا کورس بمعہ رھائش اور کھانا فیصل اباد اور قصور اور چکوال پروگرام جاری ھے
ڈاکڑ امجد ثاقب بانی اخوت فاونڈیشن کے پاکستان بھر مربوط نیٹ ورک تقریبا 100 شہروں میں پھیلا ھوا ھے۔۔۔ رفاعی اور سماجی کاموں میں ایک بہت بڑا حصہ سیلاب میں ان کا بہت امدادی پراجیکٹ مکمل کیا تھا اسی طرح کرونا وائرس اور رمضان میں سفید پوش لوگوں کو راشن بھی دیتے ھیں تارکین وطن کی طرف اگر 100 ارب روپیہ فی کس ایک ڈالر آنے سے یہ ایسا پراجیکٹ ھوگا کے یہ پورے ملک کامیابی سے چلے گا یہی انسانیت کی پر وقار خدمت کا بہترین طریقہ ھے